Wednesday, May 31, 2017

پیغام آفاقی کا مشہور زمانہ ناول ’مکان‘



پیغام آفاقی کا مشہور زمانہ ناول ’مکان‘ 


عزہ معین(ایم اے)

پیغام آفاقی کا مشہور زمانہ ناول ’مکان‘ ۱۹۸۹ء میں شائع ہوکر منظرعام پرآیا تو ادبی حلقوں میں اسے خوب پذیرائی حاصل ہوئی۔اس وقت تک پیغام آفاقی بحیثیت شاعر تو اپنی خاصی پہچان بناچکے تھے جس کی ایک بڑی وجہ علی گڑہ مسلم یونیورسٹی میں زمانہ طالب علمی میں پروفیسر شہریار اورقاضی عبدالستار جیسی عالمی شہرت یافتہ شخصیات کی صحبت سے فیضیاب ہونا تھا۔لیکن بحیثیت ناول نگار وہ اپنی کوئی شناخت نہ رکھتے تھے۔ان کے ایام طفلی میں بھی کوئی ادبی پس منظڑ کی جھلک نہیں دکھائی دیتی۔
پیغام آفا قی کی پیدائش ۱۹۵۶ء میں بہار کے ایک گاؤ میں زمیندار گھرانے میں ہوئی۔ہوش کے ناخون سنبھالنے کے بعد انہوں اپنی ابتدائی تعلیم گاؤں ہی میں حاصل کی اور تعلیم کا یہ سلسلہ جو انہوں نے اپنی گاؤں سے شروع کیا تھا وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم اے کرنے کے بعد کچھ پل کے لئے رُکا تواس کے بعد انہوں نے خود کو مطالعہ ، مشاہدہ اور علمِ مجلسی حاصل کرنے میں غرق کردیا۔یہی مطالعہ اور مشاہدہ ان کے قلم کو رفتار پکڑنے میں معاون ثابت ہوا۔ان کی تخلیقات میں شعری مجموعہ ’’درندہ‘‘ ، افسانوی مجموعہ ’’مافیا‘‘نیز دو ناول ’’مکان‘‘ اور ’’پلیتہ‘‘ قابل ذکر ہیں۔ان سب تخلیقات میں ’’مکان‘‘ نے جو بلندمقام اردو ادب میں پیغام آفاقی کو عطا کیا وہاں کی سیرخال خال ہی کسی کے حصہ میں آتی ہے۔ پہلی مرتبہ جب میں نے پیغام آفاقی کے اس ناول کا تذکرہ اپنے اساتذہ سے سنا تو دل میں اس کے مطالعہ کی خواہش انگڑائیاں لینے لگی۔پس! آج جوکچھ بھی نوک قلم پر رواں ہے یہ اسی مطالعہ کا نتیجہ ہے۔
مکان ۔۔۔۔ ایک ایسا ناول ہے جس کے لئے نقاد مختلف نوع کے خیالات رکھتے ہیں کسی نے اسے زندگی کی عکاسی کرنے والا ، کسی نے وجود کی گہرائی ناپنے ،کسی نے ذات کا عرفان کسی نے تحفظ کی علامت اور کسی کی نظر میں سماج کی گھناؤنی حقیقت اس ناول کی کہانی میں پیش کرنے کی کامیاب سعی کرنے کے طور پر اس کی پہچان کی ۔ان سب سے قطع نظر ارتضا کریم کے الفاظ ’’ اردو فکشن کی تنقید ‘‘ میں مکان کے لئے ایک نئی جہت کا پتہ دیتے ہیں ۔انھوں نے اس ناول کے تجزیہ سے ثابت کیا ہے کہ عہد حاضر میں قانون کی بکھرتی دھجیاں ،پست ہوتی اخلاقی اقدار اور لوگوں کے حل ہوتے کام کے پیچھے رائج نظام جس میں کینسر کی طرح پھیلتا ہوا کرپشن اب لا علاج بیماری بن گیا ہے ۔اس تجزیہ میں انھوں نے ثابت کیا ہے کہ آفاقی نے اس ناول میں کرپشن زدہ بیمار معاشرے کی نبض پکڑنے کے علاوہ بھی بہت کچھ کہا ہے ۔ارتضاکریم نے جسم اور اس کے اعضاء کی طرف ذہن کو متوجہ کیا ہے ۔انھوں نے اس ناول کے اچھوتے معنی دریافت کرنے کی کوشش کی ہے ؛
’’ یہ ناول محض جدید شہری معاشرے کی پوشیدہ کرپشن ،لاقانونیت اور اخلاقی بے راہ روی کی نشاندہی
ہی نہیں بلکہ اس کے آگے بھی بہت کچھ کہتا ہے ۔کہیں ایسا تو نہیں کہ ہمارا جسم مکان ہے اور ہم نے اپنے جسم
تمام اعضاء کو کرایہ پر اٹھا رکھا ہے ۔کہیں پیغام آفاقی نے اس ناول کے تعلق سے عرفان ذات کی توسیع تو نہیں
پیش کی ہے ؟‘‘
’’مکان‘‘ اپنے عہد ہی میں نہیں بلکہ ادب کی ارتقاء سے اب تک کا عالمی پیمانے پر پہلا شاہ کار ہے ۔اس کی گہرائی ،فلسفیانہ خیالات اور نفسیاتی بیانات جو مصنف کی عقل و شعور کا پتہ دے رہے ہیں اسے نئی بلندی عطا کرتے ہیں ۔یہ صرف ایک ناول نہیں ہے اور نہ ہی یہ گزرے زمانے کا تہذیبی المیہ ہے اور نہ حسن و عشق کی داستان عظیم!۔تو آخریہ ہے کیا؟ اسے سمجھنے کے لئے محترمہ نسیم سید کے جملے کافی ہیں:
’’دراصل یہ گلوب پہ کھنچی ہوئی لکیروں کو مٹا کر ایک مکان جیسا بنا دینے کے بعد اس میں موجود ہونٹ سی لینے والی خاموش غلام گردشوں، سازشی بیٹھکوں ،طاقت کی پر پیچ دستار سروں پر سجائے مکان کی ہر آہٹ پر نظر رکھنے اور اپنی مٹھی میں جکڑ لینے والے ہمارے اطراف چلتے پھرتے کرداروں کی روداد ہے ۔اور اس روداد کے انہی کرداروں سے ٹکراجانے والی صدیوں کی کم ہمت مجبور آواز کے یا وجودکے اپنے آپ کو جوڑنے بٹورنے، اٹھ کھڑے ہونے اور منوانے کی داستان ہے ۔مکان دراصل ٹوٹی ہمتوں کو جوڑنے کا فکری وجدان بھی ہے اور تخلیقی منشور بھی اور وہ گر بھی جو راکھ میں دبکی آگ ڈھونڈھ نکالتا ہے اور اسے پھر شعلے میں تبدیل کر دیتا ہے ۔اس گر کو مصنف نے ’نیرا‘ کا نام دیا ہے اور اس منشور کو ’مکان‘ کا۔‘‘
’مکان‘ کے حوالے سے نسیم سید کے ان قیمتی جملوں سے کچھ آگے بڑھتے ہوئے بلراج ورما نے کہا:’’نیرا ایک لڑکی نہیں بلکہ ہندوستان کی وہ اقلیت ہے جو اکثریت سے برسرِپیکار ہے۔‘‘بلراج ورما صاحب کے مذکورہ جملے میں ، میں نسیم سید کی اس فکر کا اضافہ کرنا چاہتی ہوں کہ ’’میں سمجھتی ہوں کہ’مکان‘صرف ہندوستان کی اقلیت کے اکثریت سے برسرِپیکار ہونے کی داستان نہیں ہے بلکہ دنیا کے ہراس بظاہرکمزور لیکن کسی چٹان سے زیادہ مضبوط انسان کی داستان ہے۔جو طاقت سے برسرپیکار ہے۔اگر اس کو دنیا کے نقشہ پر کھینچی ہوئی لکیروں کو مٹا کے دیکھا جائے تو یہ ایک بہت بڑے کینوس پر بنائی ہوئی تصویر ہے۔‘‘
’مکان‘ نے اپنے مصنف کو اردو ادب میں ایک اہم مقام عطاکیا ، ادبی دنیا کواپنی طرف متوجہ کرنے کی کشش رکھنے والا یہ ناول ہندوستان ہی میں نہیں بلکہ پاکستان اور اردو دنیا و ادب سے واقف اشخاص کے لیے باالخصوص فکشن نگار کے لئے سنگ میل کا درجہ رکھتا ہے ۔اپنے اس ایک ناول کی وجہ ہے پیغام آفاقی اردو ادب میں ہمیشہ یادکئے جائیں گے۔ ناول میں آفاقی نے روایات سے مکمل انحراف برتا ہے ۔انہوں نے اپنے اس ناول میں کردارو ں کی پختگی ، ان کا انداز زندگی، روزمرہ کا رہن سہن، ان کی فکر، شخصیاتی پیچیدگیاں، نفسیاتی انتشارگوکہ ہر پہلو کو پوری وضاحت کے ساتھ بیان کیاہے۔ہرکردار کو گوشت پوست کے ساتھ، زندگی کی ساری رنگینی میں ڈبوکر صفحہ قرطاس پر سجادیا ہے۔ہرفرد کو اس کی اصل زندگی عطاکی ہے۔ نہ کسی کوصرف ’ولن‘‘ بناکر پیش کیا ہے اور نہ ہی ’ہیرو‘ کے طور پر متعارف کرایا ہے۔جو کچھ ہے وہ اصل زندگی سے بہت قریب ہے ، نہ پوری طرح برا ہے اور نہ صرف اور صرف اچھائی کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہے۔اس ناول میں سب سے زیادہ مشاہدہ ان اخلاقی اقدار کا کیا گیا ہے جن کا ہونا اس لئے زیادہ ضروری ہے کہ عورت کی اہمیت سے انکار ممکن نہ ہو سکے ۔ اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ محنت اور لگن کے آگے کسی بھی طاقت کی کوئی بھی اصلیت قائم نہیں رہتی ۔قدرت کے ہاتھ میں کامیابی انھیں لوگوں کے لئے ہوتی ہے جو سچی لگن اور مسلسل جد و جہد میں لگے رہتے ہیں ۔
ناول کا مرکزی کردار ’’نیرا‘‘ کم عمر ہے لیکن زمانے کے سردوگرم سے فرار اختیار کرنے والی ہرگز نہیں ہے۔معاشرے کا بھرپور مشاہدہ کرنے کے بعد اس کے اندر ایک پختگی آتی ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی چلی جاتی ہے اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ یہ پختگی اس کے اندر پوری طرح رچ بس جاتی ہے۔اس کینوس کے پس منظر میں آفاقی نے ہر انسان کی زندگی کی عکاسی کردی ہے۔جو بھی پریشانیاں خواہ وہ خاص ہوں یا عام ، کوئی امیر ہو یا غریب ، ان پریشانیوں کا سامنا کرنے میں ہمت ہار جاتے ہیں، قسمت کا گلا کرتے ہیں لیکن ان سے ایک تنہا لڑکی کس طرح نبردآزماں ہوتی ہے یہ اس ناول میں انتہائی سلیقہ سے پیش کیا گیا ہے۔’مکان‘ کا سب سے اہم کردار ’نیرا‘کو اپنے مکان کو بچانے کے لئے کہاں کہاں جانا پڑا اور کس طرح کے لوگوں سے ملنا پڑا۔ ایک لڑکی کی تنھائی اور مجبوری کو لوگ کیوں ہمیشہ اپنے سکون اپنی عیاشی کے لئے زرخرید لونڈی کی طرح استعمال کرنا چاہتے ہیں ۔اس طرح کے سوالات کی اس ناول کے مطالعے سے خاطرخواہ تسکین ہو جاتی ہے ۔معاشرے میں عورت ے لئے اس کی توانائی سے زائد پریشانیاں منھ پھیلائے کھڑی رہتی ہیں ۔اسے اپنی زندگی سنوارنے کے ساتھ ساتھ معاشرے کی چبھتی ہوئی نظروں کا سامنا کرنا اس کی اصل پریشانی سے زیادہ وسعت رکھتا ہے ۔اور یہی ایشیائی خواتین کے لئے سب سے بڑاالمیہ بھی ہے ۔
نیرہ بھی ایک مکمل وجود تھی ۔ میڈکل کی طالبہ عدالت اور پولیس کی بے راہ رویوں کے علاوہ سرمایہ دار طبقے سے بھی تنھا ہی نبرد آزما تھی ۔اپنی نسوانیت کو عبقری مقام پہ فائز کئے ہوئے تمام ہی نازیبا واقعات و حرکات اپنی ذات پر جھیلنے کا درد جان رہی تھی۔ وہ کوئی طوائف یا پیشہ ور زندگی سے نہیں آئی تھی جو یہ سب اس کے لئے دلچسپ ہوتا۔اس کی نسائیت بری طرح مجروح ہو گئی جب انھیں مددگاروں میں سے ایک مددگار’ را کیش ‘نے اس کی مجبوری کا فائدہ اٹھانے کی گھٹیا حرکت کرنے کی کوشش کی۔ دانستہ اپنے عریاں وجود سے تو لیہ گرا کر اسے شرمندہ کر نا چاہا ۔دوسرے الفاظ میں یہ ایک طریقہ تھا نیراکے جسم تک پہنچنے کا ۔ لیکن ان حرکات کو سمجھنے کی ان سے اپنے ضمیر کی حفاظت کرنے کی نیرا میں طاقت پیدا ہو چکی تھی ۔اس نے کوئی اثر نہیں لیا راکیش کے غلیظ ذہن اور فرسودہ حرکات کا۔
’’نیرا ۔۔۔۔۔دیکھو ۔۔۔۔۔جو کچھ سامنے ہے دیکھو ۔۔۔۔۔اپنی نظروں کو جھکنے نہ دو ۔شرماؤ نہیں ۔ اس کو دیکھنا
ضروری ہے۔زندگی کی کتنی سچا ئیاں یو ں ہی تولیہ باندھے گھومتی پھرتی ہیں ۔وہ مطمئین تھی ۔اور اس کی نگاہیں ٹھوس ہو گئیں
تھیں ۔اسے روحانی خوشی سی ہوئی کہ آج پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ ایک دلشکن گھناؤنی حقیقت غیر متوقع طور پر اس کے سامنے
آئی تھی ۔لیکن اسے دھوکہ کھا جانے کا احساس نہیں ہوا ۔اور نہ وہ مسلسل چوٹیں کھاتے کھاتے اب مسلسل سہمی سہمی سی رہنے لگی
تھی۔دیکھو نیرا اور تب تک دیکھتی رہو جب تک تمھار ے اندر سے چونکنے والی بات ختم نہ ہو جائے ۔اور وہ دیکھتی رہی ۔اور
اس وقت تک دیکھتی رہی جب۔۔۔۔۔اسے لگنے لگا کہ وہ ایک معمولی بات دیکھ رہی ہے۔‘‘
خود کو مضبوط کرنے تک کا یہ عمل بہت صبر آزما تھا اور اس کے لئے یہ اس کی زندگی کا پہلا مرحلہ تھا ۔لیکن مسلسل حالات سے نبرد آزما ہونا اس کی حسیات کو جھنجوڑ کر اس کے لئے مشعل راہ بنتا چلا گیا ۔اتنا کہ ایک دن خود راکیش نے جان لیا کہ یہ لڑکی عام لڑکیوں سے الگ سوچتی ہے ۔
’’یہ لڑکی ۔۔۔۔۔اس طرح نہیں سوچتی جس طرح دوسرے سوچتے ہیں ۔یہ لڑکی مقدمہ لڑنے پر اڑی ہوئی ہے ۔
پچھلے چھ ماہ میں اس کے ارادے میں کمزوری کے بجائے مضبوطی آتی گئی ہے ۔‘‘
نیرا ایک نئے عزم اور پختہ یقین کے ساتھ اٹھ کھڑی ہوئی عدالتوں اور وکیلوں کے جان لیوا نخروں سے لڑنے کے لئے ۔پھر سچائیاں اس کے سامنے کھلنے لگیں ۔وکیل سے مشورہ کرنے پر اسے حقیقی حالات کا علم ہوا ۔اس کی زندگی جتنے خانوں میں بٹی ہوئی تھی اس نے تمام کو یکجا کرلیا اور اپنی کمزوریوں پرایک ایک کرکے غور کیا ۔ مجبوری اور بے بسی کی زنجیریں کاٹ کر تالوں کی چابی حاصل کرنا اس کے لئے آسان مرحلہ نہیں تھا لیکن اس نے یہ راستے کے پتھر اپنی راہ کی رکاوٹ نہیں بننے دئے ۔حقیقت کی تہ تک پہنچ کر نیرہ اپنے اور کما ر کے وقت کی قیمت جان چکی تھی اس لئے اس نے سوچا ۔
’’ میں اپنے اس وقت اور توانائی سے جو کچہری میں صرف ہوتا ہے ،کمار کو کچہری میں بار بار بلاؤں گی ۔اس کا وقت
بہت قیمتی ہے۔اگر میراایک دن خراب ہونے سے میرا پچاس روپئے کا نقصان ہوتا ہے تو اس کا ہزار روپئے کا نقصان
ہوتا ہے ۔میں تجربات دوسروں کو دے کر ان کے بدلے میں مدد لوں گی ۔‘‘
محکمہ پولیس کا ایک افسر رشوت سے جیب بھاری کرنے کے بعد کس طرح ملزم کی سپر بن کر حفاظت کرتا ہے اور نیرا کے لئے اس نے کیا پلان کیاہے ،اس کی کمار کے سرمائے سے ہونے والی آمدنی کی کتنی حیثیت تھی کہ وہ نیرا کی زندگی پر بن آنے والی مصیبت کی بھی طرف متوجہ نہیں تھا ۔یہ سب کچھ پڑھنے کے بعد اپنا سر شرم سے جھک جاتا ہے لیکن حقیقت تو یہی ہے کہ یہ بدقسمتی سے ہمارے ملک کی سچی تصویر ہے جو آئے دن مصیبت کے لمحوں میں فریم سے باہر نکل ہمارے سامنے آکر کھڑی ہوجاتی ہے۔
ناول کی مکمل وضاحت نیرا کے خواب میں کی گئی ہے ۔اس میں نیرا کے ذہن کی حالت ،ناول کا مکمل پلاٹ ،پریشانیاں اور ہونے والے واقعات کا احاطہ اس طرح کیا گیا ہے کہ ناول کا خاکہ سا بن گیا ۔ذہنی حالت اور پیش آنے والے حادثات کے بیان کرنے کا اس سے بہتر کوئی بھی طریقہ ہو ہی نہیں سکتا تھا ۔ خواب میں اس کے تمام احباب و محلہ دار اس کے سامنے آئے،سیٹھ اور شل ہوجانے والے اسفار تک اس ایک خواب میں دکھائے گئے ہیں ۔ایک علامت کے طور پر ناول کا اختصار اس خواب کے ذریعے آفاقی نے بیان کردیا ہے ۔
زبان و بیان کی طرف متوجہ ہونے میں ہمیں تھوڑی سی لغزش نظر آتی ہے ۔’مکان‘ کے کرداروں کی زبان کوئی خاص نہیں ہے ۔ یہ ناول کی کمی بھی کہی جاسکتی ہے کہ کرداروں کو ان کے طبقے پر منحصر زبان نہیں دی گئی بلکہ ہر فرد کو ایک ہی زبان دی گئی ہے ۔وہ چاہے غنڈہ ہو یا پولیس کا افسر ،منتری ہو یا سرمایہ دار زبان سب کی وہی ہے جو کسی معیاری معاشرے میں لوگ استعمال کرتے ہیں ۔لیکن کہانی اور پلاٹ کے ساتھ مکالموں سے قاری اس طور پر بندھ جاتا ہے کہ اسے یہ کمی محسوس ہی نہیں ہوتی ۔زبان کی عمدگی اس ناول میں کمی بیشی کر بھی نہیں سکتی تھی یہ بات کچھ خاص افراد اور خاص تخالیق تک ہی محدود ہوتی ہے ۔ان کی سوچ اور انداز بیان کی نہج اتنی اونچی ہوتی ہے کہ وہ ان چھوٹی موٹی باتو ں پر اپنی عمدگی کا انحصار نہیں کرتے۔زبان کی ایک جیسی ہیت ہونا شاید اس کی وجہ گاؤں کے اس ماحول کا مشاہدہ اور پس منظر ہے جس میں آفاقی صاحب نے آنکھ کھولی ۔سماج میں الگ الگ طرح کے لوگ رہتے ہیں، سب کا اپنا اندازگفتگو اور مخصوص لہجہ اور روزمرہ میں استعمال ہونے والی زبان ہوتی ہے۔جو ہندوستان میں متحدہ اقوام میں اتحاد کے بیچ انفرادیت کو ہوا دیتی ہے اور یہی انفرادیت ہر طبقہ کی پہچان بتاتی ہے۔یہی انفرادیت اور خصوصیت ’مکان ‘ میں نظر نہیں آتی ۔یہاں آکر ناول قاری کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ہر طبقے کو ایک ہی زبان کے ذریعہ متعارف کیا جائے۔
عورتوں کی ہمت اور قوت برداشت کا بہت باریک بینی سے مطالعہ کرکے آفاقی صاحب نے اسے اپنے ناول میں پیش کیا ہے۔ایک تنہا لڑکی جو میڈیکل کی تعلیم حاصل کررہی ہے ، بڑے بڑوں سے دو دو ہاتھ کرنے کو تیار ہے اوراس جدوجہدمیں آخر تک اپنے وجود کو ٹوٹنے سے بچائے رکھتی ہے۔طبقاتی کشمکش کے درمیان ، اقتصادی پریشانیوں کے باوجود وہ سبقت حاصل کرتی ہے۔باصلاحیت اور موجودہ وقت کی باہمت عورت کی اس ناول میں عمدہ مثال پیش کی گئی ہے۔
آفاقی صاحب نے اپنے ادبی سفر کا آغاز علیگڑھ مسلم یونیورسٹی سے کیا، شاعری میں اپنی پہچان بنائی ۔ ترقی پسند یا جدیدیت سے متاثر ہوئے بغیر اپنی نئی راہ نکالی۔محکمہ پولیس سے وابستہ ہونے کی وجہ سے دہلی مستقل مسکن بن گیا لیکن ادبی حلقوں میں ان کی اصل پہچان کی وجہ ’مکان ‘ ہی ہے۔جس کے سر اردو ناول کی تجدید نو کا سہرا جاتا ہے۔یہ ناول نہ صرف اردو میں ایک بڑی اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے بلکہ امریکہ کی ایک ادبی تنظیم نے ’مکان‘ کو دنیا کے چند عظیم ناولوں کے طور پر منتخب کرکے امریکی عوام کے مطالعہ کا حصہ بنانے کے لئے ترجمہ کا فیلوشپ بھی دیا۔
ناول کے ذریعے معاشرے کی نسائی طاقت کو ایک نئی جہت بھی عطا کی گئی ہے ۔اس کی بے مثال کردار نیرا کو خواتین کے لئے نمائندگی کا اوتار بنا کر پیش کیا ہے۔ نیراؔ کی باحوصلہ شخصیت کی پختگی اور خود شناسی کا منظر پارک میں واضح ہوا ہے ۔اس نے تمام کمزوریوں کو ماچس کی تیلیوں سنگ جلا دیا اور ایک الگ عزم لے کر زمانے کو اس کی اصل شکل دکھانے کے لئے اٹھ کھڑی ہوئی ۔یقیناًیہ ناول کا پسندیدہ ترین حصہ ہے کہانی کا عروج پوری توانائی سے زیر نظر ہے ۔نیرا نے اپنے ذہن کو ان تمام رشتوں اور الجھنوں سے پہلے ہی آزاد کرا لیا تھا ۔اس نے جب اس جنگ کا آغاز کیا تھا تب ہی یہ الفاظ اس کی بلند ہمتی کی طرف اشارہ کر رہے تھے ۔
’’اگر میری ماں کی جان خطرے میں ہے اور ان کے مر جانے کا اندیشہ ہے تو وہ مرجائیں ،اب میں اس
سے اپنی ہمت اور ارداے کو نہیں توڑ سکتی ۔اگر انکل کے نام سے سمن نکل رہا ہے ۔اگر پر دیپ اور انکل کے
درمیان زبر دست غلط فہمیاں پیدا ہوں گی ،اور یہاں سے وہاں تک کے سارے رشتے ٹوٹ پھوٹ جائیں
گے ،سارے جذبات اتھل پتھل ہو جائیں گے ،سمن ملنے سے ا ن کے گھر میں قیامت برپا ہو جائے گی ،اگر
ان کو دل کا دورہ پڑ جائے گا اور ان کے گھر میں صف ماتم بچھ جائے گا ۔اگر انکل کا وہ گھر جہاں مجھے آخری
سہارا ملتا ہے دلی میں ۔اگر وہ گھر چھوٹ جائے ۔میرے لئے اجنبی بن جائے تو بن جائے ۔اگر میرا مکان
بک جاتا ہے بک جائے ۔میری شادی کے لئے ایک پیسہ بھی گھر میں نہیں بچتا نہ بچے ،اگر مجھے اپنی پڑھائی
کچھ دنوں کے لئے چھوڑنی پڑتی ہے چھوٹے ،اگر مجھے لوگوں کے بستروں میں سونا پڑتا ہے تو سونا پڑے،
اگر عدالتیں میرے لئے بے معنی ہو رہی ہیں تو ہو جائیں ،اگر تھا نہ میرے لئے مکمل طور پر اجنبی اور دشمن
بن رہا ہے تو بن جائے ،اگر مجھے اپنی سوسائیٹی اپنے گھر اپنے جسم اپنے جذبات ۔اپنی ا یک ایک سانس
سے بغاوت کرنی پڑتی ہے تو پڑے لیکن اب میں اس راستے کو نہیں چھوڑسکتی ۔جس پر چل کر میں اپنی ایک
ایسی دنیا ں تخلیق کر سکتی ہوں ،جس میں میری روح کو کچلنے کے لئے ہمارے مخالفین کے ہاتھ میں کوئی حربہ
نہیں رہ جاتا ۔دوسروں کی تخلیق کی ہوئی دنیا ں چاہے جس قدر خوبصورت ہو لیکن وہ میری نہیں اور اس پر
میرا اختیار نہیں ۔‘‘
ناول میں ماحول کو پرکشش اور دلچسپ رکھا گیا ہے ۔تمام ناول کو ایک ہی نشست میں پڑھنے کے لئے کسی تحریک کی ضرورت نہیں ہے ۔قاری کو ناول اگرکسی مجبوری کے تحت بیچ سے چھوڑنا پڑے تو ناگوار گزرتا ہے ۔اگرچہ نہ ہی کہیں سراپا بیان کیا گیا ہے نہ مرکزی کردار کے حسن و عشق کی کوئی کہانی بیان کی گئی اور مزاحیہ جملوں، ہنسی، کھیل ،تماشوں سے بھی حد درجہ بے اعتنائی برتی گئی ہے ۔ لیکن قاری پھر بھی اختتام تک پہنچنے کا منتظر رہتا ہے ۔
مکالمے نہ تو جذباتی ہیں اور نہ ہی روکھے سوکھے ۔ لا اعتبار الفاظ کی کہیں کوئی آمیزش نہیں ملتی ۔بصیرت افروز مکالموں کی پختگی نے فن پارے کی قد ر و اہمیت میں چار چاند لگا دیئے ہیں ۔نثر لکھنے کی صلاحیت الفاظ پر عبور آفاقی کے قلم کی بہت بڑی خوبی ہے ۔آفاقی کا سماجی اور ادبی منظر پر بہت گہرا مطالعہ ہے ۔ان کی فکری ترسیل وہاں تک ہے جہاں سے آگے جانے کے لئے ابھی اردو ادب میں کسی ادیب نے قدم نہیں رکھا ۔روایتی ناول نگاری سے قطع نظر ان کے ناول ’مکان ‘ کا موضوع اور بیانیہ مقصدی اور اصلاحی تحریر ان کے اسلوب کی چاشنی ا نھیں عصری مصنفین سے بلند مقام عطا کرتی ہے ۔اور آخر میں بہترین تحریر کے ذریعے ہدایات بھی دیں اور فلسفے کی گہرائی سے بھی نوازا۔ کہانی میں معلومات بھی ملتی ہے اور کئی کہانیاں ایک ساتھ ترقی کرتی ہیں ۔ فکر کی بلندی ،ان کے الفاظ کا تعین اور عمیق معلومات کی ایک مثال یہاں درجی کی جا رہی ہے جن سے متنوع جہات ظاہر ہوتی ہے ۔
’’ہم شکار اس لئے ہوجاتے ہیں کہ ہم ایک غلط فہمی کے پہلے سے ہی شکار ہیں کہ ہمارا کام بقا و فنا نہیں
ہمارا کام دیکھنا ہے ۔کہ ہم آنکھ ہیں ۔کہ جب ہم صرف ایک آنکھ بن کر بڑھتے ہیں تو کائینات کا حصہ بن
کر رہ جاتے ہیں ۔اس کے سحر میں کھوئے کھوئے دور دور تک چلے جاتے ہیں کیوں کہ اس باہری کائنات
کی ڈوریاں جن کے سہارے ہم بڑھتے ہیں وہ ان انجان گپھاؤں میں جاکر کھو جاتی ہیں جن کے آخری
سروں تک ہم کبھی نہیں پہنچ سکتے ۔کہ یہ سرے ریشم کے دھاگے کی طرح ،ریشم کے کیڑے کے دھاگے پیدا
کرنے کے عمل میں جاکر مل جاتے ہیں اور ان کیڑوں کی کوئی معین سمت نہیں ہوتی کیوں کہ وہ پیدا ہو
تے اور مرتے رہتے ہیں ۔اور ہم مسلسل بڑھتے جائیں تو ان کے اس لعاب میں جا اتریں گے جس کے
سو کھنے سے اس کے پیچھے پیچھے دھاگہ پیدا ہوتا ہے اور اس سے آگے بڑھنے پر ہم بے شمار ریشم کے کیڑوں
کو دیکھتے ہیں جو مختلف انجانی سمتوں میں اپنے پیچھے لعاب چھوڑتے آگے بڑھتے دکھائی دیتے ہیں ،جن
میں کچھ سامنے دکھائی دیتے ہیں اور کچھ کو ہم پردے پڑے ان گنت سوراخوں میں گم ہوا پاتے ہیں اور
کچھ دھاگوں کا سرا راستے میں ہی ختم ہو جاتا ہے ۔یوں ہی جیسے ان کا کوئی مقصد ہی نہ ہو یا جن کا مقصد
پہلے ہی پورا ہو چکا ہو ۔ان میں کچھ دھاگے موٹے ہوتے چلے جاتے ہیں اور جب ہم ان میں سے کے
ساتھ دور تک چلتے ہوئے آخری سرے تک پہنچتے ہیں تو وہاں دھاگوں کو لعاب اور لعاب کو چشمہ اور چشمے
کو چٹانوں میں سے نکلتے ہوئے دیکھتے ہیں اور جب ہم ان چٹانوں کے قریب پہنچتے ہیں تو دیکھتے ہیں
کہ یہ چٹان نہیں بلکہ ریشم کے کیڑے کا جسم ہے لیکن وہ اب لعاب کے دلدل میں پھنس چکے ہوتے
ہیں ۔اور آخر کا ر اس سفر کی کوشش میں فنا ہو جاتے ہیں اس طرح جو اس کی حقیقت سے پوری
طرح آشنا ہوتے ہیں وہ بھی فنا ہوتے ہیں اور جو ناآشنا ہوتے ہیں وہ بھی فنا ہو جاتے ہیں ۔‘‘
ناول کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس میں کسی طرح کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑی گئی ہے ۔آفاقی صاحب نے کہیں نقطہ لگانے کی بھی کمی نہیں چھوڑی ہے ۔آخر میں میرا مشورہ ہے کہ تمام قارئین ادب کو اس ناول کا ایک مرتبہ مطالعہ ضرور کرنا چاہئے ۔کیونکہ یہ ناول نہ صرف ادب اور اردو سے واقفیت کا بہترین ذریعہ ہے بلکہ عہد حاضر کے مختلف مخالف عناصر کے باریک بین تجزیہ کے ساتھ ساتھ معاشرتی زہر آلود فضا کو پوری طرح سے واضح بھی کرتا ہے ۔مختلف عہدے داروں کی نفسیات کے مطالعے میں کامیاب ثابت ہوا ہے ۔اور ہر کردار کے عوامل کی تصویر کشی میں بے مثال نمونہ پیش کرتا ہے ۔
الغرض پیغام آفاقی ایک کامیاب ناول نگار ہیں اور ناول مکان بہترین ناولوں کی لسٹ میں اول نمبر حاصل کرنے کا حقدار ہے ۔
***
عزہ معین ۔سنبھل ۔ jrf.m.a

Email: izzamoin@gmail.com



1 comment:

  1. محترمہ نے ناول کے تجزیہ میں بڑی محنت سے کام لیا ہے ۔ناول کے حوالے سے جو بھی کوئی رائے تھی انہیں یکجا کیا ہے اور اپنے خیالات کا اظہار کرنے میں بھی کوئی جھجک محسوس نہیں کی مکان کیا اس سے بر طرف کیونکہ ادبی شہہ پارہ جب شہہکار بن جاتا ہے تو اس کے لئے کوئی ایک رائے ختمی نہیں ہوتی وہ زمانے کے ساتھ ساتھ نئے معنی کھوجتا ہی رہتا ہے ۔ہو سکتا ہے آفاقی صاحب کا یہ ناول بھی ایسی قدرت رکھتا ہوں مگر یہاں جس طرح اب تک کی تحقیق کو چھانٹا گیا ہے اس سے اس مضمون کی معنویت بڑھ جٓاتی ہے ۔مبصر کے حق میں دعا گو ہوں

    ReplyDelete