Sunday, February 10, 2019

2018 کا فکشن ۔ ڈاکٹر اسلم جمشید پوری ۔( محمد علیم اسماعیل )




_________________
____________________

پروفیسر اسلم جمشید پوری

 کا2018 کا فکشن اور فکشن تنقید : ایک جائزہ

وقت کا بہتا دریا، مسلسل بہتا رہتا ہے، دن، مہینے، سال یوں آہستگی سے گذر جاتے ہیں کہ احساس ہی نہیں ہوتا،کب،حال،ماضی اور مستقبل حال میں تبدیل ہوا،پتہ ہی نہیں چلتا۔نئے سال کا استقبال،نئے نئے منصوبے،خود سے عہد و پیمان،اہداف کا تعین کرتے کرتے ربع اور نصف برس یوں ہی گذر جاتا ہے اور پھر ہماری دیگر مصروفیات کب چین لینے دیتی ہیں۔ سال کے آخر میں پھر خیال آ تا ہے کہ اپنا جائزہ لیں، ہم نے کیا کیا،کیا اور کیا کیا نہیں کیا۔ در اصل ہر سال، نئی نئی ایجا دات، تخلیقات، حیرت انگیز کارناموں، شخصیات اور یاد گار لمحات کے لیے جانا جاتا ہے۔ وقت کے بہتے دریا نے2018ء نامی قطرے کو کچھ اس طور اپنے اندر اتار لیا ہے کہ وہ ضم ہو کے دریا بن چکا ہے۔
2018ء میں تحریر ہو نے وا لا ادب خصوصاً اردو فکشن(ناول،افسانہ، افسانچہ اور ڈراما)، بچوں کی کہانیاں، فکشن تنقید، سوشل میڈیا پر فکشن وغیرہ کا ایک عالمگیر جائزہ پیش ہے۔
2018ء کا افسانہ
سال2018ء میں افسانوی مجمو عوں کی اشاعت کی رفتار، گذشتہ برسوں سے کچھ زیادہ ہی رہی ہے۔ ہمارے کئی افسانہ نگاروں کے پہلے مجمو عے اشاعت کے مرحلے سے گذرے۔کچھ کے تیسرے اور چوتھے مجمو عوں کی اشاعت عمل میں آئی اور کچھ کے نئے ایڈیشن سامنے آئے۔
60ء کی دہائی کے معروف افسانہ نگار منظر کاظمی مرحوم کا واحد افسانوی مجمو عہ’’لکشمن ریکھا‘‘1991ء میں منظر عام پر آیا تھا مجمو عے نے خاصی شہرت و مقبو لیت حاصل کی تھی۔ مجمو عے کا دوسرا ایڈیشن مع چھ غیر مطبو عہ افسانوں کے2018ء میں شا ئع ہوا ہے۔جسے ان کے چھوٹے بھائی معروف طنز و مزاح نگار ڈاکٹر افسر کاظمی نے ترتیب دیا ہے۔ ’’لکشمن ریکھا‘‘ برسوں سے بازار میں دستیاب نہیں تھا اور اس کی مانگ بہت تھی۔’’لکشمن ریکھا‘‘ کے یوں تو زیادہ تر افسانے انفرادیت رکھتے ہیں۔لیکن بعض افسانے مثلاً ’’سیاہ غلاف اور کالے جرنیل‘‘،’’ آسمان سے گرتی روٹیاں‘‘،’’ سو گز پر دفن ایک کہانی‘‘، ’’ایک پرا نی شاخ سے لپٹا آ دمی‘‘، ’’آخری دروازے سے گذرتے لوگ‘‘،’’رات کا سورج، دن کا چاند‘‘، ’’طوطے بولتے ہیں‘‘،’’ بندر ناچ‘‘ نہ صرف اپنے عہد کے خوبصورت اور عمدہ افسانے ہیں بلکہ اردو افسانوی روا یت میں اضافے کا درجہ رکھتے ہیں۔
عبد الصمد ہمارے معتبر فکشن نگاروں میں شمار ہو تے ہیں۔70ء کی نسل کے لکھنے وا لوں میں کم ہی ایسے ہیں جو آج اکیسویں صدی میں بھی پو رے طمطراق سے خود کو دہرا ئے بغیر فکشن تحریر کررہے ہیں۔ ایسے ہی معدو دے چند میں عبدالصمد بھی ایک ہیں۔جہاں تک ان کی افسانہ نگاری کا تعلق ہے تو انہوں نے اپنی منفرد شناخت کو بنائے رکھا ہے۔ 2018ء میں ان کے افسا نوں کا نیا مجمو عہ’’ دمِ واپسیں‘‘ منظر عام پر آیا ہے۔ مجمو عے میں کل پندرہ افسانے شامل ہیں۔ہر افسانہ مو ضوع اورTreatmentکے اعتبار سے مختلف و منفرد ہے۔ عبد الصمد کے اسلوب نے زیادہ تر افسانوں کو الگ تراش خراش عطا کی ہے۔مجمو عے کا سر نامہ’’دم واپسیں‘‘ ایک نہایت عمدہ افسانہ ہے۔اس کا نام اعتراف ہو تا تو زیادہ دلکش ہو تا۔ لیکن عبد الصمد نے جس طرح صیغہ واحد متکلم کردار کے ذریعے افسانہ بیان کیا ہے، اس سے افسانے میں خود نوشت کا رنگ غالب ہو گیا ہے اور خود نوشت میں خود کو بے نقاب کرنا بڑا مشکل کام ہو تا ہے۔لیکن یہاں عبد الصمد کے کردار نے اپنے ایک ایک گناہ کا اعتراف کر کے خود نوشت کاحق ادا کردیا ہے۔ایک بے حد خوبصورت افسا نہ ہے۔ 
صادقہ نواب سحر نے اپنے ناول’’ کہانی کوئی سناؤ متاشا‘‘ سے جو دھوم مچا ئی تھی وہ ان کے تازہ ناول’’ جس دن سے‘‘ تک مزید دور تک پھیل چکی ہے۔ بطور افسانہ نگار بھی ان کی شناخت اپنے ہمعصروں سے منفرد ہے۔ ان کا پچھلا افسانوی مجمو عہ’’خلش بے نام سی‘‘2012ء میں شا ئع ہوا تھا۔ تازہ افسا نوی مجمو عہ’’ پیج ندی کا مچھیرا‘‘2018ء میں شائع ہوا ہے۔ مجمو عے میں کل تیرہ افسا نے شامل ہیں۔ ان سبھی افسانوں میں جہاں ایک طرف علاقائی رنگ خاصا کثیف ہے تو مو ضو عات کی بو قلمونی بھی ہے۔ لہجے کا نیا پن اور قصے کے اتار چڑھاؤسے وجود میں آنے والے افسانے قاری کو اپنی گرفت میں کر لیتے ہیں۔’’پیج ندی کا مچھیرا‘‘ مجمو عے کا ایک منفرد افسا نہ ہے۔ مرکزی کردار کا مچھلیاں پکڑ نا، خوب نشہ کرنا، گھر کا بھی خیال رکھنا اور دوسروں کی مدد کرنا، قاری کو حیران کرتا ہے۔ پٹا خے اور بم پھوڑنے کے چکر میں اپنا ایک ہاتھ گنوا نے وا لا مہا دو، شرا بی ضرور ہے مگر ذمہ دار شو ہر ہے تو دوسرے کے دکھ درد میں کام آنے والاسخی بھی ہے۔ شراب کے نشے میں ہاتھ گنوا نے کے بعد بھی محنت مزدوری سے جان نہیں چراتا، اس کا یہ احساس ذمہ داری، اس کے کردار کو خاص بنا دیتا ہے۔ مجمو عے کے کئی افسا نے ٹمٹما تے دیے، اکنامکس، الو کا پٹھا، ٹوٹی شاخ کا پتہ، راکھ سے جلی انگلیاں بھی متاثر کرتے ہیں۔
سلمیٰ صنم کی شناخت سائنس کا افسا نوں میں بہتر استعمال کرنے وا لے معدودے چند افسا نہ نگاروں میں ہو تا ہے۔ ان کے تازہ افسا نوی مجمو عے’’ قطار میں کھڑے چہرے اور دیگر کہا نیاں‘‘ نے2018ء میں کم مدت میں خاصی شہرت حاصل کی ہے۔ اس سے قبل ان کے تین افسا نوی مجمو عے’’ طور پر گیا ہوا شخص‘‘،’’ پت جھڑ کے لوگ‘‘،’’ پانچویں سمت ‘‘ شائع ہو چکے ہیں۔ تازہ مجمو عے میں زیادہ تر افسا نے پچھلے مجمو عوں سے شا مل ہیں، چند نئے افسا نے بھی ہیں۔ پانچویں سمت، مَیری، پت جھڑ کے لوگ، تھکی ہوئی ناری، طور پر گیا ہوا شخص، آرگن بازار، سورج کی موت وغیرہ عمدہ افسانے ہیں۔
راجیو پر کاش ساحر ،نے نئی صدی میں اردو میں لکھنا شروع کیا ہے۔ ان کا پہلا افسا نوی مجمو عہ’’ ایک بھیگے لمحے کی لمبی سڑک‘‘2015ء میں شا ئع ہوا۔ راجیو پر کاش ساحر، اردو کے عاشق ہیں، دلدادہ ہیں، اردو میں افسا نے قلم بند کررہے ہیں۔ ان کا دوسرا افسا نوی مجمو عہ’’ پیاسی سبیلیں‘‘2018ء میں شا ئع ہو کر خا صا مقبول ہوا ہے۔ مجمو عے میں کل گیارہ افسا نے ہیں۔ یہ افسا نے اپنی شناخت قائم کرتے ہیں۔ در اصل راجیو پرکاش اپنے افسا نوں میں ہندی کا استعمال بڑی ہنر مندی سے کرتے ہیں۔یہی باعث ہے کہ ان کی زبان دو آتشہ ہو کر الگ لطف دیتی ہے۔ مجمو عے کا ٹائٹل افسا نہ’’ پیاسی سبیلیں‘‘ پانی اور پیاس کے تعلق سے ایک عمدہ افسا نہ ہے۔ افسا نہ کئی صدیو ں پر محیط ہے۔ پانی کے مسئلے کو عمدگی سے پیش کرتا ہے۔ کہانی کے مرکزی کردار سامعین اور صیغہ واحد متکلم’’میں‘‘ کی خاتون کردار ہے جو پیشے کے اعتبار سے کار گرل ہے۔ افسا نے میں عمدگی سے دکھایا گیا ہے کہ بازار میں کی عورتیں ایک سبیل کی مانند ہیں جو دوسروں کی پیاس بجھانے کے لیے ہی بنی ہیں،جہاں بے شمار لوگ اپنی پیاس بجھاتے ہیں۔لیکن وہ خود اپنی مرضی سے اپنی پیاس نہیں بجھا پاتی،وہ تو ساجن جیسے مخلص مرد کی پیاس بھی نہیں بجھا پاتی ہے،ایک عمدہ افسا نہ ہے۔ پورے مجموعے میں املا کی بے شمار غلطیاں ہیں۔ بعض الفاظ نہ صرف غلط لکھے گئے ہیں بلکہ ان کا استعمال بھی غلط ہوا ہے۔
’’علی امام کے افسا نے‘‘ کو محترم علی امام کے افسا نوں کا کلیات کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ علی امام ہمارے اچھے افسانہ نگاروں میں شمار ہو تے ہیں۔۱۹۷۰ء کی دہائی سے افسا نے قلم بند کر نے والے علی امام کا نام علی امام نقوی سے مماثلت کی وجہ سے بھی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ لیکن علی امام نے اپنی شناخت الگ قائم کی ہے۔ ان کے دو افسا نوی مجموعے’’نہیں‘‘1985ء،’’مت بھید‘‘1995ء میں شائع ہو چکے ہیں۔’’ ہاں! میں یہاں ہوں‘‘2018ء میں شائع ہونے وا لا مجموعہ ہے جس میں 25افسانے ہیں۔ مگر علی امام کے افسا نے ،میں ان تینوں مجمو عوں کو ایک ساتھ شائع کیا گیا ہے۔ یہ ایک نیا تجربہ ہے جو ریسرچ کا کام کرنے والوں کے لیے انتہائی کار آ مد ہے۔لیکن کتاب کی ضخامت خاصی بڑھ گئی ہے۔’’علی امام کے افسانے‘‘ میں متعدد خوبصورت اور پر اثر افسانے شامل ہیں۔چنا مسالہ، آہٹ،سائے سراب کے،غلامی آپ کو مبارک ہو،نیتی،کوئی پتہ نہیں،ہاں میں یہاں ہوں، سریلی آ واز وغیرہ قابل ذکر افسانے ہیں۔
احمد عارف، کرناٹک کے ایک معروف افسانہ نگار ہیں،جنسی مو ضوعات کو افسانے میں سلیقے سے باندھنا،کھیل نہیں،احمد عارف اس میدان سے گذرتے ہوئے کبھی لڑکھڑائے تو کبھی کامیاب ہوئے ہیں۔یوں تو وہ1982ء سے ہی افسانے قلم بند کر رہے ہیں ،لیکن’’ایک کمرے والا مکان‘‘ ان کا پہلا افسانوی مجمو عہ ہے،مجمو عے میں کل سترہ افسانے ہیں،بیشتر افسانے جنسی مو ضو عات کا احاطہ کرتے ہیں۔’ایک کمرے وا لا مکان‘،ان کا خاص افسا نہ ہے۔ یہ بڑے شہروں میں چھوٹے گھروں کا قصہ ہے۔ایک کمرے میں تین تین چار چار بچوں کے ساتھ میاں بیوی کی زندگی کی عکاسی میں احمد عارف نے حتی الامکان تخلیقیت کا استعمال کیا ہے۔مجھے منٹو کا افسانہ’ننگی آوازیں‘ یاد آ رہا ہے،’ایک کمرے والا مکان‘ میں تخلیقی ہنر مندی اور کردار نگاری کے فقدان نے ایک اچھے افسانے کو،بڑا بننے سے روک دیا ہے۔مجمو عے کے کئی افسانے چونکا تے ہیں،اب بولو،ایک بار اور،بد دعا،دو بہنیں،نا جو کا ادھیکار،تر چرتر وغیرہ افسانے احمد عارف کی شناخت بنیں گے۔
’’پانیوں میں گھلتی زمین‘‘ رحمن نشاط کا چو تھا مجمو عہ ہے۔ اس سے قبل ان کے تین مجمو عے منظر عام پر آ چکے ہیں ، مگر نجانے کیوں مجھے افسا نوں میں اتنے مجمو عوں والی پختگی نظر نہیں آتی۔ زیادہ تر افسانے ہنر مندی اور اسلوب کی دلکشی کے فقدان میں بے اثر سے نظر آ تے ہیں۔افسانوں کے مو ضو عات ضرور مختلف ہیں۔ بعض افسا نے علا متی ہیں لیکن علامتیں بہت واضح نہیں۔ہاں،ایک نیا پن یہ ہے کہ’’پانیوں میں گھلتی زمین‘‘ کا جواز یوں پیش کیا ہے کہ کرۂ ارض کا تین چوتھائی پانی بڑھتا جا رہا ہے اور زمین کا حصہ روز بروز گھلتا جا رہا ہے۔
’’ابابیل کی ہجرت‘‘ ڈاکٹر شا ہد جمیل کا پہلا افسانوی مجمو عہ ہے۔ یوں شا ہد جمیل ایک عرصے سے افسانہ نگاری کررہے ہیں ۔اردو کے بیشتر اہم رسا ئل میں ان کے افسا نے شا ئع ہو تے رہے ہیں۔لیکن یہ ان کا پہلا مجمو عہ ہے۔ مجموعے میں کل15افسانے شامل ہیں۔شا ہد جمیل اپنے اسلوب سے پہچا نے جاتے ہیں۔ وہ زندہ اور متحرک کرداروں کو افسانوی رنگ دیتے ہیں اور خوب رنگتے ہیں۔ ان کے کردار قاری کے ذہن میں اندر تک اترتے چلے جاتے ہیں۔ مجموعے میں یو ں تو ہر افسا نہ اہم ہے۔مثلاً مہاجر، نجات، تحفہ،صحرا میں بھٹکتی چڑیا،جالے میں پھنسی مکڑی وغیرہ مگر ٹائٹل افسانہ خصوصی طور پر بار بار قرأت کا متقاضی ہے۔ زندگی کے مسائل،بڑھتی صارفیت، قدیم و جدید کا ٹکرا ؤ، جذباتیت،فلیٹ کلچر کا بڑھتا دائرہ کہا نی کے کرداروں کو قریب و دور کرتا رہتاہے۔ابابیل کی علا مت کا خوبصورت استعمال کر کے شاہد جمیل نے کہانی میں جان ڈال دی ہے۔
اکیسویں صدی میں متعدد نئے چہرے افسانے کی دنیا میں داخل ہوئے ہیں۔ایسے ہی چند جوانوں میں محمد علیم اسماعیل کا شمار بھی ہو تا ہے۔ مہا را شٹر کی زر خیز سر زمین سے نمو دار ہو نے والے اس نو جوان کا پہلا مجمو عہ’’الجھن‘‘ کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔ یوں تو محمد علیم اسماعیل، زیادہ تر افسانچے قلم بند کررہے ہیں۔لیکن گا ہے بگا ہے افسا نے بھی شائع ہورہے ہیں۔’’الجھن‘‘ ان کے افسانوں اور افسانچوں کا مجمو عہ ہے جس میں59افسانچے اور13افسانے شامل ہیں۔ اختصار یوں بھی افسانچے کا بڑا وصف ہے۔ محمد علیم اسماعیل نے افسانوں میں بھی اختصار کا دا من نہیں چھوڑا ہے، یہ افسانے اور افسانچے نو جوان مصنف کے اندرون کی بے چینی،اضطراب اور الجھن ہے۔ایسی الجھن جس سے آج کا انسان قدم قدم رو برو ہو رہا ہے خواہ وہ ملک میں پھیلتی فرقہ پرستی ہو،بگڑتا ہوا معاشرہ ہو یا پا مال ہوتے اقدار۔ایسے میں ہر شخص حیران و پریشان سا ایک عجیب سی کشمکش کا شکار ہے۔’’ الجھن‘‘ ایک سچے محب وطن مسلم افسانہ نگار کے اضطراب کا مظہر ہے۔
’’نئی صبح ‘‘کے بعد ڈاکٹر ایم اے حق ’’ڈنک‘‘ لے کر حاضر ہیں۔ ڈا کٹر ایم اے حق کا شمار اردو کے معدودے چند افسانچہ نگاروں میں ہو تا ہے۔ فی زمانہ افسانچے کے فن اور اس کی باریکیوں سے کما حقہ واقف افسانچہ نگار بمشکل دو چار ہی ہوں گے۔ ایم اے حق ایسے ہی ماہر فن افسانچہ نگار ہیں۔ انہوں نے افسانے بھی قلم بند کیے ہیں لیکن وہ انہیں طویل افسانچے کا ہی نام دیتے ہیں۔ در اصل کوزے میں سمندر سمونا، ہر کس و ناکس کے بس کا نہیں۔افسانچے اور لطیفے یا مزاح پاروں میں لطیف سا فرق ہو تا ہے۔ اسے سمجھے بغیر افسانچہ تحریر کرنا، صفحات سیاہ کرنا بس ہے۔’’ڈنک‘‘ ایم اے حق کے خوبصورت، کاٹ دار، طنز سے بھر پور، قصے کی رمق لیے افسانچوں کا مجمو عہ ہے۔ ان افسا نچوں کو پڑھتے ہوئے آپ چونکتے بھی ہیں، حیران بھی ہو تے ہیں، کہ افسانچہ نگار نے سماجی برا ئیوں کو کس عمدگی سے الفاظ میں ڈھالا ہے۔
’’مہندی لہو کی‘‘ سیدہ تبسم منظور ناڈ کر پہلا افسانوی مجمو عہ ہے۔ سیدہ تبسم بھی اکیسویں صدی کی افسانہ نگار ہیں۔ مجمو عے میں کل اٹھا رہ افسانے شا مل ہیں۔ مجمو عے کے زیادہ تر افسانے معاشرتی زندگی کو پیش کرتے ہیں۔ ان افسانوں میں اصلاحی نقطۂ نظر حا وی ہے۔ زیادہ تر افسانے معاشرے میں رائج غلط قسم کے رواج اور برائیوں کو طشت از بام کرتے ہیں۔
جرمنی میں مقیم سید انور ظہیر رہبر کا پہلا افسانوی مجمو عہ’’ عکسِ آواز‘‘ کے نام سے کرا چی سے شائع ہوا ہے۔ سید انور ظہیر برسوں سے شاعری کے ساتھ ساتھ افسانہ نگاری بھی کررہے ہیں۔’’ عکسِ آ واز‘‘ میں ان کے افسا نے انفرادیت کے حامل ہیں۔ سید انور ظہیر نے ایسے مو ضو عات کا انتخاب کیا ہے، جو ہیں تو ہماری زندگی کے، لیکن ان تک ہما ری نظر نہیں جاتی۔ بعض مو ضو عات تو خالص مغربی ممالک کے ہیں۔ ان کے متعدد افسانے، مو ضوع، Treatment، زبان اور ماحول کے اعتبار سے انفرادیت کے حامل ہیں۔
مجازی خدا میں خدا کی تلاش،47کلو میٹر، ہاتھ سے جنت بھی گئی، آوازیں، کبھی دل سے تم نکلے ہی نہیں،2/3 حصہ بعض ایسے افسانے ہیں جو اپنے مو ضوع، عنوان اوربنت کے لحاظ سے بالکل منفرد ہیں۔ان میں یورپ کی زندگی کے مسائل بھی ہیں، دہشت گردی بھی ہے تو عورت کے دل کی عمدہ عکاسی بھی۔ انور ظہیر رہبر کے یہ افسانے ان کی شناخت بنیں گے۔
’’روح دیکھی ہے کبھی‘‘جرمنی کی نو جوان افسانہ نگارہما فلک کا پہلا افسانوی مجمو عہ ہے جسے انہماک پبلی کیشنز لاہور نے شا ئع کیا ہے۔ہما فلک اپنے افسا نوں میں انو کھے پن اور چونکانے کے لیے مشہور ہیں۔ ان کے زیادہ تر افسانے عورت اور مرد کے رشتوں کا بیان ہیں۔ ایک عورت کے اندرون کو ہما فلک نے عمدگی سے لفظوں کی زبان عطا کی ہے۔مجمو عے میں کل17افسانے ہیں۔ بعض افسانے مثلا بلندی وا لی،وقت سے پرے،کاسہ باز، ایوارڈ، ببول، روح دیکھی ہے کبھی، عمدہ افسانے ہیں۔ ان افسانوں میں پیش ہو نے والے کردار اور واقعات، قاری کو اپنے ہی آس پاس کے لگتے ہیں۔قاری مصنفہ کے ساتھ ساتھ کہانی کا سفر شروع کرتا ہے اور حیران رہ جاتا ہے کہ کہانی ختم ہو نے کے بعد اس کے اندر شروع ہو جاتی ہے۔
خلیجی ممالک میں مقیم اردوافسانے کی نئی آواز سبین علی کا پہلا افسانوی مجمو عہ’’گل مصلوب‘‘ بھی زیور طبع سے آراستہ ہو کر ہمارے سامنے ہے۔سبین علی پاکستان کی رہنے والی ہیں اور آج کل سعودی عرب میں مقیم ہیں۔دونوں ممالک کے حالات،معاشرہ ،عورت کی زندگی، مذہبی معاملات وغیرہ کو ہنر مندی سے سبین علی نے افسانہ کیا ہے۔
معصومہ خا تون کے افسانوں کا مجمو عہ’کشمکش‘ بھی حال ہی میں منظر عام پر آیا ہے۔ معصومہ خا تون افسانے کے ساتھ ساتھ ناول بھی قلم بند کرچکی ہیں۔ ان کے افسانوں میں بہار کی خواتین کے مسائل عام طور پر ملتے ہیں۔ وہ سادگی میں پر کاری کرتی ہیں۔ ان کے افسانے سیدھے دل میں اتر جاتے ہیں۔ مجمو عے میں کل17افسانے شا مل اشاعت ہیں جن میں سے کئی افسا نے جھوٹ، عجیب اتفاق، بدلہ، تصویر کے ٹکڑے،مجبور،عزم قاری کو اپنے ساتھ بہا لے جاتے ہیں۔ معصومہ خا تون کی تحریر میں ایک کشش ہے جو پڑھنے والوں کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔
بہار کے نو جوان افسانہ نگار معین گریڈیوی’’ آنکھوں کا لہو‘‘ لے کر آئے ہیں۔ یہ اُن آنکھوں کا لہو ہے جنہوں نے ابھی دنیا میں کچھ نہیں دیکھا تھا اور دیکھا تو ایسے مناظر کہ آنکھیں لہو رونے پہ مجبور ہیں۔ مجمو عے میں کل اٹھا رہ افسانے شامل ہیں۔یہ افسانے ایک ایسے نو جوان قلم کار کے ہیں جس نے زندگی کو قریب سے دیکھا ہے۔ زندگی کے حسن و قبح، نشیب و فراز اور سفید و سیاہ سے گذرتے ہوئے آج کے نوجوان کا حال کیا ہوتا ہے۔کیسے وہ قدم قدم پر نت نئے حادثات کا شکار ہو تا ہے،یہ سب ان افسانوں میں ملے گا۔ٹوٹتے رشتوں کا عذاب،کرشن جی کا تعزیہ، احساس، حویلی کا چراغ، زمانہ بدل گیا، ہرا زخم، بلیک ڈائمنڈ،ایسے افسانے ہیں جو زندگی کو سمجھنے،اپنے پرا ئے کا فرق کرنے، حب الوطنی، فرقہ پرستی،انسانیت وغیرہ کو سمجھنے کا اچھا ذریعہ ہے۔
راقم کے مجمو عے’’ عید گاہ سے واپسی‘‘ کا تیسرا ایڈیشن بھی اسی سال شا ئع ہوا۔
2018ء کے ناول
اکیسویں صدی میں ناول کی اشاعت بھی خا طر خواہ ہو رہی ہے۔ ابھی تک اس صدی میں متعدد اہم ناول شائع ہو کر مقبول ہو چکے ہیں۔ پو کے مان کی دنیا( مشرف عالم ذوقی)، غلام باغ( مرزا اطہر بیگ)، اندھیرا پگ،(ثروت خان)،کئی چاند تھے سر آسماں( شمس الرحمن فاروقی)، انار کلی( مرزا حا مد بیگ)، دکھیارے( انیس اشفاق)،آخری سواریاں ( سید محمد شرف)،نادیدہ بہاروں کے نشاں(شا ئستہ فاخری)،کہانی کوئی سناؤ متاشا(صادقہ نواب سحر)، عزازیل(یعقوب یاور)، چاند ہم سے باتیں کرتا ہے( نو ر الحسنین)، موت کی کتاب( خالد جاوید)،روحزن( رحمن عباس)، شکست کی آ واز( عبد الصمد)، دویہ بانی( غضنفر)، ایک بوند اجالا(احمد صغیر)، سراب منزل(اے خیام)،لمینیٹڈ گرل( اختر آزاد)، گؤ دان کے بعد(علی ضامن)،ڈیوس علی اور دیا( نعیم بیگ)، گرداب( شموئل احمد) ،جانے کتنے موڑ( آشا پربھات)، برف آشنا پرندے( ترنم ریاض)، شہر میں سمندر( شا ہد اختر) جیسے تقریباً دو درجن ایسے ناول منظر عام پر آئے ہیں جو اردو ناول کے فروغ میں اہم موڑ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اکیسویں صدی کو فکشن کی صدی کے طور پرProjectکیا جارہا ہے۔ دیگر زبانوں کی بات سے گریز کرتے ہوئے صرف اردو پر نظر ڈالیں تو اکیسویں صدی میں اردو فکشن روز افزوں ترقی کی جانب گامزن ہے۔ افسانے کے ساتھ ساتھ ناول کی رفتار بھی اطمینان بخش ہے۔ ہر سال تقریباً نصف درجن ایسے ناول ضرور شا ئع ہو رہے ہیں جو قاری کی پسند پر کھرے اتر رہے ہیں اور جنہیں اچھے ناول کے زمرے میں رکھا جا سکتا ہے۔
سال کے شروع ہی میں معروف افسا نہ اور افسا نچہ نگار محمد بشیر ما لیر کو ٹلوی کا خوبصورت ناولٹ’’جسی‘‘ شائع ہوا۔ ’’جسی‘‘ جہاں ایک طرف بشیر مالیر کو ٹلوی کی قصہ پر دسترس اور ہنر مندی پر دال ہے وہیں پنجاب کے سیاسی و تہذیبی پس منظر کے ساتھ ساتھ پنجابی خوشبو کو بکھیر نے والا ناول ہے۔یہ ایک عورت کے خاموش احتجاج کی کہانی ہے۔ دہشت گردی کے پس منظر میں تحریر ہونے والا ایک اہم اور با مقصد ناولٹ میں بشیر مالیر کوٹلوی نے عمدگی سے پنجاب کی رسم و رواج، شادی بیاہ، خوردو نوش، الہڑ جوانیاں، کھیل کود، کھیت کھلیان، موج مستی کو ناول میں پرو کر زندہ کردیا ہے، بلونت اور جسی ناول کے مرکزی کردار کے طور پر اپنی گہری چھاپ چھوڑتے ہیں۔
نور الحسنین اپنے نئے ناول’’ تلک الایام‘‘ لیے حاضر ہیں۔ یہ وہی نو ر الحسنین ہیں جنہوں نے گذشتہ برسوں، ’ایوانوں کے خوا بیدہ چراغ’ اور’ چا ند ہم سے باتیں کرتا ہے‘ جیسے اہم ناول عطا کیے ہیں۔ آخر الذکر ناول فکشن کی نئی تکنیک جسے کولاژ تکنیک کہا جاتا ہے، میں تحریر کردہ اردو کا پہلا ناول ہے۔ یہاں زماں و مکاں کی حدیں ٹوٹتی ہیں، مختلف زمانے کے مختلف واقعات کوایک لڑی میں پرو کر ناول کیا جاتا ہے۔ نو ر الحسنین نے گذشتہ کئی ناولوں سے تاریخ کو اپنا موضوع بنانا شروع کیا ہے’’تلک الایام‘‘ ہما ری ہزار ہا سال کی تاریخ، تہذیب اور مذہبی شناخت کا بیان ہے۔ مسلمانوں کی ہندوستان آمد سے اب تک کے حالات، عروج و زوال اور موجو دہ عصری منظر نامہ اور نو ر الحسنین کا با کمال قلم، ان سب نے ناول کو یاد گار بنا دیا ہے۔ خاندان، شرافت، طمطراق اور رو حانی سلسلے کا بیان ناول میں جہاں تجسس کو برقرار رکھتا ہے وہیں گم ہو تی تہذیبی اقدار کا منظر نامہ ہما رے سامنے لا دیتا ہے۔
پیغام آ فاقی کو مرحوم لکھتے ہوئے آج بھی قلم لرزتا ہے۔ ناول کی دنیا میں پیغام کے’مکان‘ نے جو شہرت پائی وہ کم ناولوں کو نصیب ہو تی ہے۔ ان کے انتقال کے بعد ان کی اہلیہ رضیہ سلطا نہ اور سلمان عبد الصمد نے ان کی غیر مطبوعہ تحریروں کی تلاش کی ،اس طرح پیغام آ فاقی کا ناول’’ دوست‘‘( مرتبہ رضیہ سلطان؍ سلمان عبد الصمد) شائع ہوا ہے۔ پیغام آفاقی نے گذشتہ برسوں’’ پلیتہ‘‘ نام کا ناول تحریر کیا۔ لیکن’پلیتہ‘ لوگوں کے دلوں میں وہ گھر نہیں بنا سکا جو’مکان‘ بنا چکا تھا۔’دوست‘ ان کا بعد از مرگ سامنے آ نے والا پہلا ناول ہے۔ ناول کا مو ضوعLive in relationship ہے۔یہ صورت حال مغربی ممالک میں تو اب عام سی ہے لیکن ہندو ستان میں ابھی بھی، بہت کم نظر آ تی ہے۔ پیغام آفاقی نے ایک اچھو تے مو ضوع کو عمدگی سے ناول کیا ہے۔
عبد الصمد ہمارے معروف فکشن نگار ہیں۔ ’’ دوگز زمین‘‘ نے انہیں جو شہرت عطا کی، وہ بے مثل تھی۔ اب تک ان کے نصف درجن سے زائد ناول منظر عام پر آ کر مقبول ہو چکے ہیں۔ لیکن ’دو گز زمین‘، وا لی شہرت و مقبولیت کسی اور ناول کے حصے میں نہیں آئی۔’’ شکست کی آ واز‘‘ کے بعد اب ان کا تازہ ترین ناول’’ جہاں تیرا ہے یا میرا‘‘ سامنے ہے۔ راشد ناول کا مرکزی کردار ہے۔ ناول کا مو ضوع سماجی انتشار ہے۔ ایک بے روزگار نو جوان کے لیے آج کی دنیا سخت ترین آزمائش کی جگہ ہے۔ عبد الصمد نے ناول کے ذریعے اقلیتی تعلیمی اداروں کے کرپشن، ٹیوشن کے کا رو بار، مسلم نوجوانوں کو دہشت گردی کے جھوٹے الزام میں گرفتار کرنے، طرح طرح سے پریشان کرنے سے لے کر9/11 کے بعد مسلمانوں کے تئیں امریکیوں کے ذہنوں میں آئی تبدیلی اور معاشی ابتری کو عمدگی سے ناول میں ڈھالنے کی کوشش کی ہے۔ زمانے کی اسی مادیت میں راشد اور آفرین کا معصوم رشتہ بھی ہچکولے کھاتا رہتا ہے۔
’’اندھیروں کے مسافر‘‘الہ آ باد کے افسا نہ نگار احمد حسنین کا پہلا ناول ہے۔ احمد حسنین اچھے شکاری بھی ہیں۔انہوں نے شکاریات پر متعدد افسا نے اور کہانیاں بھی تحریر کی ہیں، جو شکار اور شکاری کے عنوان سے کتابی شکل میں بھی شائع ہو چکے ہیں۔’’اندھیروں کے مسافر‘‘ میرٹھ اور قرب و جوار یعنی مغربی اتر پردیش کے دیہات میں کھاپ پنچایت کے فیصلوں سے آنر کلنگ تک کے سفر سے اٹھنے والی چنگاری ہے۔ کہانی کھاپ پنچا یت کے اعلی ذات اور پسماندہ ذات کے لڑ کے لڑکی کے پیار کو سزائے موت دینے سے شروع ہو تی ہے۔ ہاردک اور پونم کہانی کے مرکزی کردار ہیں۔ ہاردک کو مرا سمجھ کر چھوڑ دیتے ہیں اور پونم جنگلوں میں بھاگ نکلتی ہے۔ کسی طرح ہاردک ممبئی پہنچ جاتا ہے اور پونم جنگل میں ڈاکوؤں کے ہتھے چڑھ جاتی ہے۔ ڈا کو شیر سنگھ کا گروہ، پونم کو حفاظت سے رکھتا ہے اور اپنے ٹھکانے بدلتے بدلتے مرزا پور، شینل پور، گھاٹی پہنچ گیا۔ پونم شیر سنگھ پر فدا ہو جاتی ہے۔ ادھر ہاردک اپنے دوست ارشد کے ساتھ پونم کو ممبئی کے کوٹھوں پر تلاش کرتا رہتا ہے۔
ناول میں ڈا کو ؤں کی زندگی کو خوبصورتی سے ڈھالا گیا ہے۔ یہی سبب ہے کہ ناول میں اندھیرا زیادہ ہے۔ یعنی جرائم کی دنیا ہے۔ جرائم کی دنیا کے مسافر، کیسے ہو تے ہیں۔ وہ اندھیرے میں روشنی کی مانند ہیں،جو برے ہیں لیکن دل کے اچھے ہیں۔ ویسے ناول فلمی کہانی کی طرح فار مو لہ بند زیادہ لگتا ہے۔
2018ء فکشن تنقید
ایک زمانہ تھا جب فکشن تنقید خال خال منظر عام پر آ تی تھی۔ ادھر نئی صدی میں فکشن تنقید کی رفتار اور مقدار میں بھی خاصا اضا فہ ہوا ہے۔ مضا مین کے مجمو عے، افسا نہ نگاروں اور ناول نگاروں پر کتب، افسا نوں کے انتخاب، افسانوی تذکرے، ناولوں کے تجزیے، ناولوں کے اختصار، تقابلی مطالعے وغیرہ مختلف طرح کی فکشن تنقید سامنے آ رہی ہے۔خوش آئند بات یہ ہے کہ فکشن تنقید کے شعبے میں نئے ناموں کا اضا فہ ہوا ہے ۔ورنہ ایک زمانہ تھا جب شمس الرحمن فاروقی، گوپی چند نارنگ، قمر رئیس، وارث علوی، وہاب اشرفی، انور سدید جیسے چند نام تھے۔ ۸۰ء کے بعد فکشن تنقید میں نئی نسل وارد ہوئی۔ انوار احمد، مرزا حامد بیگ، ابولکلام قاسمی،، شمس الحق عثمانی، عظیم الشان صدیقی، ارتضیٰ کریم، علی احمد فاطمی، صغیر افراہیم، مبین مرزا، قمر الہدیٰ فریدی، اعجاز علی ارشد، ظہو ر الدین، قدوس جاوید، اسلم آزاد، سلیم آ غا قزلباش، صبا اکرام، خالد اشرف، خالد علوی وغیرہ کی نسل نے فکشن تنقید میں نئے زا ویے وا کیے۔ اس نسل کے کچھ زمانی فرق کے ساتھ ایک اور نسل سامنے آ ئی جس میں مشرف عالم ذوقی، ترنم ریاض، نگار عظیم،حقا نی القاسمی، وضا حت حسین رضوی، ہما یوں اشرف، احمد صغیر، اسلم جمشید پوری، فرزا نہ احمد، شہاب ظفر اعظمی، مولا بخش، خو رشید حیات، فوزیہ اسلم، راشد انور راشد، نعیم انیس،نسیم اعظمی،محمد اسلم پرویز، نجمہ رحمانی، کہکشاں پروین، صا حب علی، محمد عالم خان اور موجودہ صدی میں کئی نام اس میں شامل ہوئے مثلا ریاض تو حیدی، اسود گو ہر، عشرت نا ہید، اسما نینی،فرقان سنبھلی،الطاف انجم، مشتاق احمد وانی، ابوبکر عباد، بشیر مالیر کوٹلوی،، نشاں زیدی، سید تحسین گیلا نی، را بعہ الربا، سلمان عبد الصمد، ضیا ء اللہ نور، غضنفر اقبال، ریاض توحیدی، غالب نشتر، احمد طارق، محمد نسیم جان، تسنیم فاطمہ امرو ہوی،، ارشد اقبال، جاوید انور، سید عینین علی حق، منصور خوشتر، مہناز عبید، ارشاد سیانوی،، صا لحہ رشید،، رضو انہ پروین، آمنہ آ فرین وغیرہ کی آ مد سے اکیسویں صدی میں فکشن تنقید کو خاصی تقویت ملی ہے۔
جہاں تک2018ء میں شا ئع ہونے والی فکشن تنقید کی بات ہے، خو شی کی بات ہے کہ اس سال فکشن تنقید پر متعدد کتب شا ئع ہوئی ہیں۔ افسا نوں کے درمیان محمد اسلم پرویز کی کتاب ہے۔ اسلم پرویز نے ادھر منٹو کے حوا لے سے خاصا اہم کام کیا ہے۔ کتاب ہذا میں انہوں نے منٹو کے افسانوں کا انتخاب اور تجزیہ پیش کیا ہے۔ اس انتخاب کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اسلم پرویز نے منٹو کے معروف افسا نوں سے الگ ایسے افسا نوں کا انتخاب کیا ہے جن پر کم گفتگو ہوئی ہے۔ نکی، ڈارلنگ، ہتک، دس رو پے،ٹیٹوال کا کتا، انجام بخیر، اوپر،نیچے درمیان، شاہ دو لے کا چو ہا، گور مکھ کی وصیت، یزید، 1919ء کی ایک بات، آخری سیلوٹ افسا نوں کا انتخاب واقعی مختلف ہے۔ اسلم پرویز کا ماننا ہے کہ منٹو شناسی، منٹو کے چند معروف افسا نوں تک ہی محدود ہے۔ اسلم پرویز کی یہ کتاب منٹو شناسی میں اضا فے کی حیثیت
رکھتی ہے۔
شہاب ظفر اعظمی، نئی نسل کے ممتاز فکشن ناقد ہیں، فکشن پر ان کی کئی تنقیدی کتب بشمول اردو ناول کے اسالیب، شائع ہو چکی ہیں۔ ’مطا لعات فکشن‘ ان کی تازہ ترین کتاب ہے۔ اس میں ان کے ناول اور افسا نے پر لکھے گئے تقریباً پندرہ مضا مین شا مل ہیں، جب کہ 11 اہم نا ولوں اور افسا نوی مجمو عوں پر تبصرات بھی شا مل ہیں۔ شہاب ظفر اعظمی کا اپنا نظریہ نقد ہے۔ انہوں نے اپنی اس کتاب میں کرشن چندر، بلونت سنگھ، شین مظفر پوری کے لے کر انتظار حسین، لالی چودھری، احمد صغیر، صادقہ نواب سحر، سلمیٰ صنم، بلرا ج بخشی، ابرار مجیب اور مہتاب عالم پرویز جیسے نئے لکھنے وا لوں پر بھی بھرپور گفتگو کی ہے۔
’’ سجاد حیدر یلدرم کا فکرو فن‘‘ اورنگ آ باد کی ابھرتی ہوئی فکشن ناقد اسود گو ہر کی کتاب ہے۔ یہ اسود گو ہر کا ایم فل کا مقا لہ ہے جس میں انہوں نے سجاد حیدر یلدرم کی شخصیت اور فن کے مختلف گوشوں پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ اسود نے سجاد حیدر یلدرم کی فکشن نگاری کے علاوہ، ڈرا مہ، رپور تاژ، خطوط اور شاعری کا بھی بخوبی جائزہ پیش کیا ہے۔ سجاد حیدر کے فکرو فن پر یہ کتاب خاصی اہمیت کی حا مل ہے۔
’’نشانات سہروردی‘‘(حمید سہر وردی: فر و فن)، وا جد اختر صدیقی کا ترتیب کردہ مضامین کا مجمو عہ ہے۔ حمید سہروردی ۶۰ء کے بعد کے اہم افسا نہ نگار ہیں۔ یہ اسی نسل کے معتبر رکن ہیں ،جس نسل نے افسا نے اور قاری کے رشتے کو از سر نو بحال کیا۔ کتاب میں حمید سہر وردی پر تحریر کردہ عمدہ مضا مین شا مل ہیں۔ مہدی جعفر، فیاض رفعت، نظام صدیقی، علی احمد فاطمی، عشرت ظفر،خالد جاوید، سلام بن رزاق، نو ر الحسنین، م۔ناگ، شموئل احمد، نسیم اعظمی، شمیم طارق، طارق سعید، احمد رشید، غضنفر اقبال، ابو صارم جیسے ناقدین اور فکشن نگار کے مضامین، تبصروں اور تجزیوں سے حمید سہروردی کے فن کی عمدہ تشریح و تو ضیح ہو تی ہے۔
’’معاصر اردو افسا نہ( تفہیم و تجزیہ)‘‘ جلد اول ڈا کٹر ریاض تو حیدی کی محنت کا ثمرہ ہے۔ ڈا کٹر ریاض تو حیدی نئی صدی کے اہم فکشن نا قدین میں شمار ہوتے ہیں۔ مختلف رسائل و جرائد میں ان کے مضا مین شائع ہو تے رہتے ہیں۔ کتاب ہذا میں انہوں نے20-25؍ برسوں میں شا ئع ہونے والے اہم افسا نوں کو تجزیے کے ساتھ شائع کیا ہے۔ بعض اہم افسانوی مجمو عوں پر تبصرے اور اردو افسا نے کے تعلق سے کئی اہم مضا مین بھی شا مل کتب ہیں۔ مضامین میں انہوں نے افسا نے کے فن سے لے کر علا متی افسا نہ، مائکرو فکشن اور کشمیری افسا نے کے مختلف پہلو ؤں پر جو بحث کی ہے وہ قا بل مطا لعہ ہے۔
’’ایک لفظ کی موت‘‘ پروفیسر صادق کی کہانیوں کا انتخاب ہے۔ ڈا کٹر عشرت ناہید کی اس کتاب سے انکشاف ہوا کہ پروفیسر صادق کبھی اچھے افسا نہ نگار بھی تھے۔ ڈا کٹر عشرت ناہید نئی نسل کی منفرد فکشن نگار اور فکشن ناقد ہیں۔ ان کی کئی تنقیدی کتب شا ئع ہو کر مقبول ہو چکی ہیں۔’ ایک لفظ کی موت‘ میں ڈا کٹر عشرت نا ہید نے پروفیسر صادق کی سات ایسی کہا نیوں کا انتخاب کیا ہے جو تجرباتی کہا نیاں ہیں۔ ان میں پروفیسر صادق نے تجربات کیے ہیں۔ در اصل ان کے زیادہ افسا نے جدیدیت کے عروج کے وقت کے افسا نے ہیں۔ یہ زمانہ تجربات کا تھا۔ پرو فیسر صادق نے متعدد تجربات کیے ہیں جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔
’’ توبتہ النصوح: ایک تلخیص، ایک تجزیہ‘‘ پرو فیسر اعجاز علی ارشد کی کتاب ہے جس میں انہوں نے ڈپٹی نذیر احمد کے معروف زمانہ ناول تو بتہ النصوح کی تلخیص کے ساتھ ساتھ عمدہ تجزیہ بھی کیا ہے۔ در اصل اس طرح کی کتابیں نصابی ضرور کے تحت تیار کی جاتی ہیں، جو طا لب علموں کی قرأت اور معنی تک رسائی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
’ ’ آج کا کشمیری افسا نہ‘‘ شفیع شوق کا انتخاب اور ترتیب شدہ ہے جسے الطاف انجم نے کشمیری سے اردو ترجمہ کیا ہے۔ الطاف انجم ابھرتے ہوئے ناقد ہیں۔ کتاب ہذ ا میں کشمیر کے تقریباً دو درجن افسا نے شا مل ہیں ۔الطاف انجم کے ترجمہ شدہ یہ افسا نے، کشمیری افسا نے کی سمت و رفتار اور صورت حال کو سمجھنے کے لیے بہترین ذریعہ ہیں۔ ساہتیہ اکا دمی نے اس کتاب کو اچھے اور خو بصورت گیٹ اپ کے ساتھ شائع کیا ہے۔
’’ اردو کی معروف خوا تین افسا نہ نگار‘‘ جلد دوم، محترمہ اسما نینی کی کتاب ہے۔ کتاب ہذا کو خوا تین افسا نہ نگاروں کا تذکرہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا۔اس کتاب کی جلد اول 2017ء میں شا ئع ہو چکی ہے جس میں نذر سجاد حیدر سے شائستہ فاخری تک تقریباً26 افسانہ نگار خواتین کے تذکرے شا مل تھے۔ جلد دوم میں تقریباً 106خوا تین افسا نہ نگاروں کے تذکرے ہیں۔ ان میں حمیدہ سلطان، سرلا دیوی سے لے کر موجودہ دور کی روشن آ را تک شامل ہیں۔ دو نوں جلدوں کو ملا کر خوا تین افسا نہ نگاروں کے تعلق سے اہم معلو مات حاصل ہو جاتی ہیں۔ دو نوں جلدوں میں زمانے کا کوئی تعین نہیں ہے اور نہ ہی حروف تہجی کے لحاظ سے درجہ بندی ۔ دو نوں جلدوں میں نئی پرا نی افسا نہ نگار شامل ہیں۔ اگر پہلی جلد میں ابتدا سے1960ء تک اور دوسری میں1960ء سے موجو دہ عہد تک کی، ترتیب یا پھر حروف تہجی کے اعتبار سے ترتیب ہو تی تو زیادہ بہتر ہو تا۔
’’ قاضی عبد الستار کی افسا نہ نگاری‘‘ محترمہ مہناز عبید کی تنقیدی کاوش ہے۔ در اصل یہ محترمہ مہناز عبید کا ایم فل کا مقا لہ ہے جسے انہوں نے پرو فیسر شمیم حنفی کے زیر نگرا نی مکمل کیا تھا۔ مہناز عبید نے قاضی عبد الستار کی افسا نہ نگاری پر خاطر خواہ کام کیا ہے۔ مقالے کے باب دو م میں قاضی عبد الستار کے اہم افسا نوں پیتل کا گھنٹہ، رضو باجی، مالکن، دھند لے آئینے،دیوالی،لالہ امام بخش، سوچ، مجریٰ، ایک کہانی،، ٹھا کر دوارہ، پر چھا ئیاں کے عمدہ تجزیے کیے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے قاضی عبد الستار کے اسلوب اور انفراد پر بھی سیر حاصل گفتگو کی ہے۔
’’نئی صدی کا اردو افسا نہ‘‘ ڈاکٹر ارشاد سیانوی کی اہم کتاب ہے۔ ڈا کٹر ارشاد سیانوی فکشن تنقید کے حوالے سے اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں اپنی شناخت قائم کر نے میں کامیاب ہیں، اس سے قبل ان کی کتاب’’ چاندنی بیگم : ایک مطا لعہ کے دو ایڈیشنز شا ئع ہوچکے ہیں۔
’’ نئی صدی کا اردو افسا نہ‘‘ میں ڈا کٹر ارشاد نے موجودہ منظر نامے کے اہم افسا نہ نگاروں کے افسا نوں کا انتخاب شامل کیا ہے۔ انہوں نے کتاب کو دو حصوں میں منقسم کیا ہے۔ حصہ اول میں آ ٹھ افسا نہ نگاروں کے افسا نوں کے تجزیے شامل کیے ہیں۔ یہ وہ افسا نہ نگار ہیں جو گذشتہ صدی میں مستحکم شناخت قائم کر چکے تھے اور آج بھی متحرک ہیں۔ حصہ دوم میں تیرہ افسا نہ نگاروں کے افسا نے اور ان کا تجزیہ شامل ہے۔ یہ سب کے سب اکیسویں صدی کے اہم افسا نہ نگار ہیں۔ کتاب کی خوبی یہ بھی ہے کہ ڈا کٹر ارشاد نے افسا نہ نگارو ں کا انتخاب صرف ہندوستان تک محدود نہیں رکھا بلکہ عالمی منظر نامے میں اردو کے جو اہم افسا نہ نگار ہیں، ان سب کو شامل کر نے کی کوشش کی ہے۔
’’اسلم جمشید پوری: اردو افسا نے کی منفرد آ واز‘‘ الہ آ باد یو نیورسٹی کی صدر شعبۂ فارسی ڈا کٹر صا لحہ رشید کی کتاب ہے۔ جس میں انہوں نے اسلم جمشید پوری کے معروف افسا نے لینڈرا کا فارسی کے افسا نہ نگار جلال آل احمد(1923-1969) کے مشہو ر زمانہ افسا نہ’’ بچہ مردم‘‘ کے ساتھ تقا بلی مطالعہ اور دو نوں افسا نوں کو فارسی اور اردو رسم الخط میں شا مل کیا ہے۔ ساتھ ہی اسلم جمشید پوری کے دیگر افسا نوں اور فکشن تنقید پر گفتگو کی ہے۔
’’ حسن رہبر ایک منفرد افسا نہ نگار‘‘ ڈا کٹر احسان عالم کی ترتیب کردہ کتاب ہے۔ حسن رہبر ہمارے معروف افسانہ نگار ہیں۔ ڈا کٹر احسان عالم نے حسن رہبر پر تحریر کردہ مضامین، افسا نوں کے تجزیے اور تبصروں کو یکجا کردیا ہے۔ ان مضامین میں وزیر آ غا، انور سدید سے لے کر رضوان احمد،مناظر عاشق ہرگانوی، قمر جہاں، مشتاق احمد نوری، سید احمد قادری اور نئی نسل کے نو شاد منظر، سلمان عبد الصمد، منصور خوشتر کے لکھے مضامین کو کتاب میں شا مل کیا گیا ہے۔ حسن رہبر کی افسا نہ نگاری اور ان کی شخصیت کو سمجھنے میں یہ کتاب خاصی معا ون ہے۔
’’ شین مظفر پوری کے منتخب افسا نے‘‘ ڈا کٹر صو فیہ شیریں کی مرتب کردہ کتاب ہے۔ ڈا کٹر صو فیہ کا شمار بنگال سے ابھرنے وا لی نئی نسل کے نا قدوں میں ہو تا ہے۔ اس سے قبل آ پ کی ایک کتاب’’ منٹو کی خاکہ نگاری‘‘ شا ئع ہو چکی ہے۔ شین مظفر پو ری ایک زمانے میں اردو فکشن کے منظر نامے کا بہت مقبول نام تھا۔ ہماری بد قسمتی ہے کہ ہم نے ایسے باکمال فکشن نگار کو بھلا دیا۔ صو فیہ شیریں نے ان کے افسا نوں کا انتخاب کر کے ایک بار پھر انہیں زندہ کر نے کی کوشش کی ہے۔
’’ پریم چند کے افسا نوں میں دلت مسائل‘‘ نئی نسل کے ابھرتے ہوئے ناقد ڈا کٹر نور نبی آزاد کی کتاب ہے۔ ڈاکٹر نور نبی نے پریم چند کے افسا نوں کا بغور مطا لعہ کرتے ہو ئے ان کے دلت افسا نوں کی نشاندہی کی ہے۔ ساتھ ساتھ پریم چند کے افسا نوں میں دلت مسائل کی عکاسی بھی کی ہے۔ انہوں نے پریم چند کو اردو میں دلت افسا نوں کا موجد بھی قراردیا ہے۔ ساتھ ہی پریم چند کے دلت کرداروں پر بھی خاصی گفتگو کی ہے۔
’’ شین مظفر پو ری: ایک ہمہ جہت شخصیت‘‘ ڈا کٹر صو فیہ شیریں کی مرتب کردہ کتاب ہے۔ ڈا کٹر صوفیہ شیریں نے اپنی کا وش سے شین مظفر پو ری کے فکرو فن اور شخصیت پر سیر حاصل مواد جمع کردیا ہے۔ خود ان کا پچاس صفحات کا مقدمہ اس طرف ایک اچھی کا وش ہے۔ عبد المغنی، طلحہ رضوی برق، احمد یو سف، توقیر عالم، وہاب اشرفی، مظہر امام، اعجاز علی ارشد، منظر اعجاز، سید احمد قادری، شہاب ظفر اعظمی، ہمایوں اشرف سمیت تقریباً تین درجن اسکالرز کے مضامین، شین مظفر پوری کی افسا نہ نگاری، ناول نگاری، افسا نوں اور ناولوں کے تجزیے، تبصرے وغیرہ شامل ہیں۔
’’ عصمت شناسی‘‘ اتر پردیش اردو اکا دمی کی شائع کردہ کتاب ہے۔جسے اسلم جمشید پوری نے مرتب کیا ہے۔ کتاب میں عصمت چغتا ئی پر تقریباً38 مضامین، افسا نوں، ناولوں کے تجزیے اورانٹرویوز 
شامل ہیں۔
ماہنامہ’’ پیش رفت‘‘ نے نومبر۔دسمبر 2018ء کا شمارہ، خصوصی اشاعت کے طور پر’’ ہندوستان میں اردو افسانہ ۱۹۸۰ء کے بعد‘‘ شا ئع کیا۔ پیش رفت کے اس شمارے کی خا طر خواہ پذیرا ئی حاصل ہوئی ہے۔ شمارے میں ۱۹۸۰ ء کے بعد کے افسانہ اور افسا نہ نگاروں پر متعدد اہم مضا مین شا مل ہیں۔ غضنفر، ڈا کٹر محمود شیخ، اسلم جمشید پوری، ہما یوں اشرف ،ابو بکر عباد، معصوم عزیز کاظمی، نو ر الحسنین، سید احمد قادری، اسد اللہ، ایم سعد الدین، نسیم احسن، فاروق اعظم، وقار انور وغیرہ کے تقریباً دو درجن مضا مین، سید محمد اشرف، ابن کنول کے افسا نے اور وقار انور کے افسا نچے بھی شامل ہیں۔ ضمیمہ کے طور پر ۱۹۸۰ء کے بعد شائع ہو نے وا لے اہم مجمو عے، اہم افسا نے اور افسا نوی تنقید پر کتب کی ایک فہرست بھی شامل ہے۔
لاہور سے شائع ہونے وا لے معروف زمانہ رسالہ’’ فنون‘‘ احمد ندیم قا سمی کی یاد گار کے طور پر جاری و سا ری ہے۔ جسے ان کی بیٹی نا ہید قاسمی اور نواسے نیر حیات قاسمی نے پو ری آ ب و تاب کے ساتھ زندہ رکھا ہے۔ رسالے کا خاص شمارہ ’’ احمد ندیم قاسمی نمبر‘‘ کی شکل میں دو جلدوں میں شا ئع ہوا ہے۔ دو نوں جلدوں میں احمد ندیم قاسمی کی شخصیت اور فن کے مختلف گوشوں ،افسا نہ نگاری، شاعری، صحافت، خطوط، کالم وغیرہ پر پو ری دنیا کے اہل و علم و ادب کے مضامین، تبصرے، تجزیے، تاثرات شا مل ہیں۔ فنون کا یہ شما رہ یا د گارہے۔
ڈاکٹر غضنفر اقبال نئی نسل کے نمائندہ ناقدین میں شمار ہوتے ہیں۔’’ جوہی کی مالا‘‘ ان کے ذریعے ترتیب دیا گیا بچوں کی کہانیوں کا مجمو عہ ہے۔ مجمو عے میں13کہا نیاں شا مل ہیں۔ ان کہانیوں کے ایک ساتھ شا ئع ہونے سے بچوں کے ادب پر کام کر نے وا لوں کو سہولت ہو گی۔ ساتھ ہی بچوں کی ذہنی اور علمی تربیت میں بھی یہ کتاب معاون ثا بت ہو گی۔
’’ ہم تم دوست ہوئے‘‘ منصور صفدر نقوی کی تحریر کردہ ایسی کہانی ہے جو بچوں کو پیڑ پو دوں سے محبت پیدا کر نے اور ان کی حفاظت کا درس دیتی ہے۔’’ ہم تم دوست ہوئے‘‘ در اصل ایک طویل کہا نی ہے جسے کتابی شکل میں دیدہ زیب گیٹ اپ اور رنگین تصا ویر کے سا تھ شائع کیا گیا ہے ۔کہانی میں بچوں کو پیڑ پودوں کو بھی جاندار سمجھنے اور ان سے محبت آمیز رویہ اختیار کر نے کی طرف مائل کیا گیا ہے۔
متعدد رسا ئل میں فکشن شائع ہو رہا ہے۔ خصوصی گوشے، خاص شمارے اور نمبر بھی شا ئع ہو رہے ہیں۔ ندائے گل ( لاہور)، انہماک( لاہور)، اجراء( کرا چی)، سیپ ( کرا چی)، ثا لث( مونگیر)، نگینہ( کشمیر)، دربھنگہ ٹا ئمز (دربھنگہ )، تحریک ادب( بنارس)،شاعر( ممبئی)، آجکل، ایوان اردو،خواتین دنیا، پیش رفت( دہلی)، زبان و ادب (پٹنہ)،مژگاں( کولکاتہ)، استفسار( جے پور)، روشنائی(کرا چی)، فکرو تحریر، روحِ ادب( کو لکاتہ)، تحقیق و تخلیق (مؤ)، سب رس ( حیدر آ باد)، عالمی انوار تخلیق( رانچی)، موج اردو( علی گڑھ)، اردو آنگن( ممبئی)،لاریب ( لکھنؤ) نیا دور( لکھنؤ)، جہاں نما( گنگوہ) وغیرہ رسائل میں افسا نے، فکشن تنقید اور نا ولوں کی اقساط وغیرہ شا ئع ہو تی رہی ہیں۔ مائیکرو فکشن کی اشاعت نے گذشتہ برس ہنگا مہ بر پا کیا۔ مائیکرو فکشن کو لے کر خا صی بحث و تمحیث جاری رہی۔
2018ء میں فکشن کو فروغ دینے والی دیگر سرگرمیاں بھی زور و شور سے جاری رہیں۔ متعدد قومی اور بین الاقوامی سیمینار، ورکشاپ اور سمپوزیم منعقد ہوئے۔ جولا ئی ماہ میں اردو انجمن برلن نے رضیہ سجاد ظہیر اور احمد ندیم قاسمی پر یک رو زہ عالمی سیمینار منعقد کیا جس میں مقا لات کے علاوہ رضیہ سجاد ظہیر اور احمد ندیم قاسمی کی زندگی اور کا ر ناموں کو فلم کے ذریعے پردے پر دکھایا گیا۔
شعبۂ اردو، پٹنہ یو نیورسٹی نے فروری میں ایک دو رو زہ قو می سیمینار بعنوان اکیسویں صدی میں اردو ناول کا انعقاد کیا۔ شعبۂ اردو کلکتہ گرلس کالج نے اکیسویں صدی میں اردو ڈرا ما، عنوان پر دوروزہ قومی سیمینار منعقد کیا۔ ادارہ ادب اسلامی نے دہلی میں دو رو زہ قومی سیمینار بعنوان’’ ہندو ستان میں اردو افسا نہ ۱۹۸۰ء کے بعد‘‘ کا کامیاب انعقاد کیا۔ شعبۂ اردو، چودھری چرن سنگھ یو نیورسٹی نے چہار رو زہ کثیر لسانی بین الا قوامی سیمینار’’ موجو دہ سماجی تغیرات کے فکشن پر اثرات‘‘( اردو، ہندی ،انگریزی) منعقد کیا۔شعبۂ اردو، ممبئی یو نیورسٹی نے سال کے آ خر میں’’ اکیسویں صدی میں اردو فکشن‘‘ پر دو روزہ عا لمی سیمینار کا کامیاب انعقاد کیا۔ کرا چی آ رٹ کاؤنسل نے اپنی گیارہویں عالمی کانفرنس میں ایک بھر پور سیشن’’ اردو فکشن: ماضی، حال اور مستقبل‘‘ کا انعقاد کیا جس کی صدارت اسد محمد خاں اور مستنصر حسین تارڑ نے کی۔
ساہتیہ اکا دمی ، دہلی نے اس سال اردو کا ایوارڈ جواں سال ناول نگار، رحمن عباس کے نام کیا۔ رحمن عباس کا شمار اردو ناول نگاروں کی نئی نسل سے ہے۔ ان کے اب تک چار ناول منظر عام پر آ چکے ہیں۔ انہیں ان کے ناول’’ رو حزن‘‘ پر ساہتیہ اکا دمی انعام دیے جانے کا اعلان ہوا ہے۔
2018ء میں ڈا کٹر منظر کاظمی نیشنل ایوارڈ ،برا ئے فکشن، سلام بن رزاق اور ڈا کٹر منظر کاظمی نیشنل ایوارڈ برا ئے فکشن تنقید ڈا کٹر شہاب ظفر اعظمی کو دیا گیا۔ ہر سال یہ ایوارڈ شعبۂ اردو، چودھری چرن سنگھ یو نیورسٹی، میرٹھ سے ڈا کٹر منظر کاظمی کی یوم ولا دت کے مو قع پر دیے جاتے ہیں۔
روز نامہ انقلاب نے، ایک نیا سلسلہ شروع کیا ہے۔ ایک افسا نے پر تین چار لوگوں کی آ راء، افسا نے کی تلخیص کے ساتھ شا ئع کی جاتی ہیں۔ اس سلسلے میں شو کت حیات، عبد الصمد، مشتاق احمد نوری، ایم مبین وغیرہ کے افسا نے شائع ہو چکے ہیں۔
سعادت حسن منٹو پر بنی فلم بھی اس سال خاصی سر خیوں میں رہی۔منٹو کے رول میں معروف فلم اداکار نوازالدین صدیقی نے منٹو کے کردار کو بخوبی نبھاتے ہوئے منٹو کو زندہ کردیا۔فلم کی ہدایت کار نندتا داس نے منٹو کی کہانیوں کو بڑی مشاقی سے فلم میں پرویا۔
گذشتہ برس کا ایک یاد گار واقعہ’’ داستان ہجرتوں کی‘‘ ہے۔ معروف ڈرا ما نگار، ہدا یت کار اور ادا کار، جاوید دانش( کنا ڈا ) نے اپنی داستان، ہندو ستان کے مختلف شہروں کے علاوہ یو ایس اور یو کے، جرمنی وغیرہ میں پیش کی۔ جاوید دانش، محمود فاروقی وغیرہ کی کا وشوں سے داستان سننے سنانے کے عمل کا احیاء ہو رہا ہے جو اردو فکشن کے لیے خوش آئند ہے۔
2018ء میں متعدد ادبا ء و شعراء ہم سے رخصت ہوئے۔ معروف فکشن نگار اور ہمارے عہد کی شناخت پروفیسر قاضی عبد الستار بھی اس دار فانی سے کوچ کر گئے ۔ ان کے انتقال پر پو ری اردو دنیا غمزدہ ہوئی، خصوصاً اردو فکشن پر غم و اندوہ کے بادل چھا ئے رہے۔ پرو فیسر حامدی کا شمیری بھی چل دیے۔ حامدی کاشمیری کی بنیادی شناخت یوں تو شاعر اور تنقید نگار کی ہے لیکن آپ نے افسا نے اور ناول بھی قلم بند کیے جنہیں آج بھی کشمیری پس منظر میں خاصی اہمیت حاصل ہے۔  

2018ء میں سوشل میڈیا پر بھی فکشن کی خاصی دھوم رہی۔ فیس بک پر عالمی افسا نہ میلہ اپنی پو ری شان بان کے ساتھ منعقد ہوا، جس میں سینکڑوں افسا نے شائع ہوئے جن پر افسا نہ قارئین کے ملے جلے تاثرات بھی شا ئع ہوتے رہے۔ جشنِ افسا نہ، نام سے فیس بک پر ایک انو کھاEvent سامنے آ یا۔ اس کو مقابلے کی صورت دی گئی ہے۔ یہ گذشتہ برس سے شروع ہوا اور ابھی تک جاری ہے۔ ان کے لیے وحید قمر، اسما حسن، سید تحسین گیلانی، ریاض تو حیدی وغیرہ کو مبارک باد!۔ گذشتہ برس عالمی بزم افسا نہ کا بھی انعقاد عمل میں آ یا۔
وہا ٹس ایپ پر مختلف گروپ بنتے اور مٹتے رہے۔ اردو چینل( مدیر قمر صدیقی) نے پورے سال اور365دن اردو زبان و ادب کی اہم معلو مات، کتب وغیرہ کو شائع کیا۔ متعدد ناول، بے شمار افسا نے بھی پو رے سال اپ لوڈ ہوتے رہے۔ قمر صدیقی مبار ک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے پو رے سال ادب خصوصاً فکشن کی اہم تخلیقات کو عوام تک پہنچا نے کا بڑا کام انجام دیا۔ وہا ٹس ایپ پر اس سال’’ اردو افسا نہ و افسا نچہ‘‘( محمد علیم اسماعیل) بھی جاری ہوا جس میں افسا نچے اور افسا نے کے علاوہ فکشن پر عمدہ مضا مین بھی لوڈ ہوتے رہے۔
اردو نیٹ جاپان( جاپان) شعرو سخن ( کنا ڈا) اردو سخن( پاکستان)پاکبان( جرمنی)عالمی پرواز(جمشید پور) اردو دوست( کلکتہ) لن ترا نی ڈاٹ کام( ممبئی) وغیرہ پر افسا نے اور فکشن تنقید شا ئع ہوتی رہی۔
مجمو عی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ2018ء اردو فکشن کے لیے اہم سال ثابت ہوا ہے۔ کئی اہم ناول، افسانوی مجموعے، فکشن تنقید پر کتب، فیس بک پر افسا نوی میلے، وہاٹس ایپ پر افسا نے اور افسا نوں کی اشاعت سے نیا منظر نامہ سامنے آیا ہے۔ نئے افسا نہ نگار اور ناقدین سامنے آ رہے ہیں۔ خدا کرے یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہے۔
***
Prof. Aslam Jamshedpuri
HOD, Urdu
CCS University, Meerut

No comments:

Post a Comment