Friday, March 21, 2025

علیم اسماعیل کی کہانی گائے پر احفاظ راویر کے تاثرات

احفاظ راویر

علیم اسماعیل کی کہانی "گائے" ایک معاشرتی اور جذباتی موضوع پر مبنی ہے، جس میں گائے کے تقدس، ماں کی محبت، اور موجودہ سماجی مسائل کو بیان کیا گیا ہے۔ کہانی جمال اور اس کی ماں کے درمیان ایک سادہ گفتگو سے شروع ہوتی ہے، لیکن جیسے ہی جمال گائے کو بیچنے کے لیے نکلتا ہے، کہانی ایک خوفناک موڑ لے لیتی ہے۔ گؤ رکشکوں کے ہاتھوں جمال پر ہونے والا تشدد ایک تلخ حقیقت کو آشکار کرتا ہے کہ کس طرح ایک شخص کے معصوم ارادے بھی آج کل کے حالات میں خطرناک بن سکتے ہیں۔ یہ واقعہ ماں کی ماں جیسی بصیرت اور بیٹے کے بے خبر رویے کے درمیان فرق کو نمایاں کرتا ہے۔

کہانی کا اختتام نہایت طاقتور اور سبق آموز ہے۔ ماں کا فیصلہ کن رویہ نہ صرف اپنی اولاد کی حفاظت کے لیے ہے بلکہ یہ اس کے تجربے اور فکر کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ کہانی سماج میں عدم برداشت اور غیر ضروری تشدد جیسے مسائل کو روشناس کراتی ہے اور یہ سکھاتی ہے کہ کسی بھی فیصلے میں جذبات سے زیادہ احتیاط اور بصیرت کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ ایک چھوٹے سے واقعے کے ذریعے بڑے سماجی مسائل پر روشنی ڈالنے کی عمدہ مثال ہے۔

Thursday, March 20, 2025

افسانچوں کا مجموعہ تماشا: ایک تاثروسیم جیلانی (بالاپور، مہاراشٹر)

افسانچوں کا مجموعہ تماشا: ایک تاثر
وسیم جیلانی (بالاپور، مہاراشٹر)

اردو ادب میں مختصر افسانہ اپنی الگ پہچان رکھتا ہے، لیکن جب بات افسانچے کی ہو تو یہ صنف اپنے اختصار، گہرائی اور چونکا دینے والے انجام کے باعث مزید توجہ طلب ہو جاتی ہے۔ افسانچہ محض چند جملوں پر مشتمل ہوتا ہے، لیکن اگر اسے ہنر مندی سے لکھا جائے تو یہی مختصر تحریر ایک مکمل کہانی بن جاتی ہے جو گہرا تاثر اور بامعنی پیغام دیتی ہے۔ علیم اسماعیل کے افسانچوں کا مجموعہ ’تماشا‘ اس صنف کی ایک اچھی مثال ہے۔

علیم اسماعیل کے افسانچوں کا مجموعہ ’تماشا‘ ایک قابلِ توجہ مجموعہ ہے۔ سنہ 2024 میں ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس نئی دہلی سے شائع اس مجموعے میں سو افسانچے شامل ہیں۔ افسانچہ گہرائی، اختصار اور اثرانگیزی کا امتزاج ہوتا ہے۔ اس طرح یہ کتاب افسانچے کی صنف کو استحکام بخشتی ہوئی نظر آتی ہے۔ ’تماشا‘ میں موجود ہر افسانچہ اپنے اندر زندگی کے کسی نہ کسی پہلو کو سمیٹتا ہے جو قاری کو غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔

مجموعے میں شامل افسانچے زندگی کے مختلف پہلوؤں، سماجی مسائل، انسانی جذبات اور معاشرتی رویوں کا عمیق تجزیہ پیش کرتے ہیں۔ علیم اسماعیل کے قلم کی خوبی یہ ہے کہ وہ کم سے کم الفاظ میں ایک گہرا اور موثر پیغام دینے میں کامیاب رہتے ہیں۔ ان کے اسلوب میں سادگی اور شائستگی ہے، لیکن یہ سادگی سطحی نہیں بلکہ ایک گہرے تجربے اور مشاہدے کی عکاس ہے۔ 

کتاب کی ابتدا میں شامل افسانچے— یقین، تماشا، رنگ بدلو، دو مونہی کیتلی، ناٹک، میرا ضمیر، آنکھیں، قاتل کون؟، میری آتما— ایسے ہیں کہ قاری پر آغاز سے ہی سحر طاری ہو جاتا ہے۔ جیسے ہی ان افسانچوں کے الفاظ آنکھوں کے دریچے سے دل میں اترتے ہیں، ایک ایسی دنیا میں کھینچ لے جاتے ہیں جہاں حقیقت اور تخیل کی سرحدیں مدھم ہونے لگتی ہیں۔ ہر افسانچہ ایک ایسا جادوئی دروازہ ہے جو کھلتے ہی پڑھنے والے کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ 

افسانچہ تخلیق کرنے میں ایک بڑی دشواری یہ ہوتی ہے کہ کہانی اور جذبات کو مختصر الفاظ اور مؤثر انداز میں پیش کیا جائے۔ علیم اسماعیل اس چیلنج کو خوبصورتی سے عبور کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کی کہانیاں نہ صرف جامع اور مختصر ہوتی ہیں بلکہ ان کا اختتام اکثر چونکانے والا ہوتا ہے، جو قاری کو کہانی پر دوبارہ غور کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔

’تماشا‘ میں ایسے کئی افسانچے ہیں جو دل پر گہرا اثر چھوڑتے ہیں۔ علیم اسماعیل نے انسانی بے حسی، اپنی ذات کے خول میں قید رہنا، محبت کے نازک جذبات اور دیگر کئی موضوعات پر افسانچے تخلیق کیے ہیں۔

’تماشا‘ مجموعی طور پر ایک اچھی کتاب ہے، لیکن بعض قارئین کے لیے اس کتاب کے تمام افسانچوں کی گہرائی کو سمجھنا شاید ایک چیلنج ہو، خاص طور پر ان قارئین کے لیے جو روایتی کہانیوں کے عادی ہیں۔ لیکن یہ کتاب ان لوگوں کے لیے ایک بہترین انتخاب ثابت ہوگی جو ادب کی مختلف جہتوں کو دریافت کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

علیم اسماعیل نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے ثابت کیا ہے کہ کم الفاظ میں بھی بڑے خیالات اور گہرے جذبات کو مؤثر انداز میں پیش کیا جا سکتا ہے۔ یہ کتاب نہ صرف سنجیدہ قارئین بلکہ ان لوگوں کے لیے بھی دلچسپی کا باعث ہے جو مختصر مگر پراثر تحریریں پڑھنا پسند کرتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ کتاب ’تماشا‘ اردو ادب میں افسانچوں کی روایت کو آگے بڑھانے میں ایک اہم ثابت ہوگی۔

Wednesday, March 19, 2025

محمد علیم اسماعیل کا افسانچہ ماں پر اسرار گاندھی کے تاثرات

اسرار گاندھی، الہ آباد (اُتر پردیش)

میرے مرحوم دوست سلام بن رزاق کا ایک کارنامہ یہ بھی ہے کہ وہ اپنے پیچھے ایسے کئی شاگرد چھوڑ گئے ہیں جو اردو زبان اور ادب کے لیے مسلسل کام کر رہے ہیں۔ علیم بھی انہی شاگردوں میں سے ایک ہیں۔ علیم بلا کے ذہین ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ فکشن کیا ہے اور اسے کیسے برتا جاتا ہے۔

اُن کی کہانی ’ماں‘ آج کے معاشرے کی عمدہ تصویر کشی کرتی ہے۔ مادیت نے انسان کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہے۔ اخلاقی قدریں، انسان دوستی اور ہمدردانہ رویہ سب آہستہ آہستہ روبہ زوال ہیں۔ ماں، جو دنیا کی سب سے عظیم ہستی ہوتی ہے، اسے بھی اولادیں استعمال کی چیز سمجھنے لگی ہیں۔ شاید اسی لیے اولڈ ایج ہومز کی تعداد دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔

علیم کو اس عمدہ افسانچے کے لیے مبارکباد!

Wednesday, January 29, 2020

ہندوستان کا نمبر 1 ادبی رسالہ ماہنامہ ’’آج کل‘‘ نئی دہلی فروری 2020 میں میرا افسانہ ’’ریجیکٹ‘‘ ملاحظہ فرمائیں۔ ’’آج کل‘‘ میں شائع ہونا ایک اعزاز ہے، ایک سند ہے۔





Tuesday, January 28, 2020

ماہنامہ ’’آجکل‘‘ نئی دہلی فروری 2020 کے شمارے میں میرا افسانہ ’’ریجیکٹ‘‘ شائع ہونے کے بعد اب ۔۔۔۔۔۔۔ دہلی سے ہی شائع ہونے والے ایک معتبر رسالے میں۔

الحمدللہ میرا مضمون ’’سوشل میڈیا اور اردو افسانہ‘‘ ماہنامہ اردو دنیا نئی دہلی، فروری 2020 کے شمارے میں شائع ہوا ہے۔ اس مضمون میں واٹس ایپ، فیس بک، یوٹیوب، مختلف ایپس اور ویب سائٹس پر افسانے کی ترویج و ترقی اور اشاعت کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس مضمون میں آڈیو اور ویڈیو افسانوں پر بھی بات کی گئی ہے۔ تو پڑھیے کہ اس میں کون کونسے واٹس ایپ گروپوں پر بات کی گئی ہے، کتنے فیس بک گروپوں کا تذکرہ ہوا ہے، کونسے یوٹیوب چینلز کا جائزہ لیا گیا ہے، کونسے ایپس افسانے سے متعلق ہیں اور کونسی ویب سائٹس پر نظر ڈالی گئی ہے۔

محمد علیم اسماعیل
Mohd Alim Ismail







Wednesday, January 22, 2020

تبصرہ
کتاب : گاہے گاہے باز خواں
مصنف : سلام بن رزاق
مبصر : محمد علیم اسماعیل
Mohd Alim Ismail


Sunday, January 12, 2020

ناندورہ میں فین کے زیرِ اہتمام رسمِ اجراء


بتاریخ 8 جنوری 2020، بروز بدھ بعد نمازِ عشاء، علامہ اقبال لائبریری ناندورہ میں، فکشن اسوسی ایشن ناندورہ ( فین ) کے زیرِ اہتمام، ایاز الدین اشہر کی سرپرستی اور حسنین ساحل کی صدارت میں، رسمِ اجراء کے پروگرام کا انعقاد کیا گیا۔ تلاوتِ کلامِ پاک سے پروگرام کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ محسن سر نے بطورِ مہمان خصوصی شرکت فرمائی۔ محمد علیم اسماعیل نے ابتدائی کلمات بیان کیے۔ متین طالب نے اپنے تاثرات سامعین کے روبرو رکھے۔ سید اسمعیل گوہر نے دونوں کتابوں کا تعارف اور معیاری ادب کی تخلیق پر سیر حاصل گفتگو کی۔ پھر شبّیر احمد شاد کی کتاب ’’شاد بیت بازی‘‘ کی رسمِ اجراء عمل میں آئی۔ اس کے بعد محمد یعقوب برکت اللہ، مالیگاؤں کی مرتب کردہ کتاب ’’نذیر فتح پوری بنام سلطان اختر‘‘ ( خطوط کا مجموعہ ) سبھی حاضرین کو تقسیم کی گئی۔ نظامت کے فرائض راحیل انجم نے بحسن و خوبی انجام دیے۔ وسیم زاہد، وسیم کاتب، ریاض احمد اور سراج قریشی نے شرکت کر کے پروگرام کو رونق بخشی۔ ایاز الدین اشہر نے کتابوں اور ادبی نشستوں کی اہمیت پر تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے کہا: ’’یہ جو کتابیں ہمیں نظر آ رہی ہیں یہ یہاں تک یوں ہی نہیں پہنچیں۔ اس کے پیچھے محنت ہے، ناندورہ کے ادباء شعراء اور ادب نواز شخصیتوں کی۔ جنھوں نے ناندورہ کی فضاؤں میں ادبی خوشبو گھول دی ہے۔‘‘ اس کے بعد صدارتی خطبہ ہوا۔ آخر میں سید عمیر عزیز کی دعا کے ساتھ پروگرام کا اختتام ہوا۔



















افسانہ : اشک پشیمانی کے
روز نامہ : میرا وطن، دہلی
محمد علیم اسماعیل
Mohd Alim Ismail
12 جنوری 2020


تبصرہ : گاہے گاہے باز خواں
مبصر محمد علیم اسماعیل
Mohd Alim Ismail
روز نامہ : پندار، پٹنہ
12 جنوری 2020

افسانہ : انتظار 
روز نامہ : راشٹریہ سہارا
محمد علیم اسماعیل
Mohd Alim Ismail
11 جنوری 2020

Thursday, January 9, 2020

روز نامہ اودھ نامہ لکھنؤ
تبصرہ 
کتاب : گاہے گاہے باز خواں
مبصر : محمد علیم اسماعیل
Mohd Alim Ismail
6 جنوری 2020



افسانچے :
رسالہ ماہنامہ بیباک، مالیگاؤں، جنوری 2020
محمد علیم اسماعیل
Mohd Alim Ismail