Thursday, March 20, 2025

افسانچوں کا مجموعہ تماشا: ایک تاثروسیم جیلانی (بالاپور، مہاراشٹر)

افسانچوں کا مجموعہ تماشا: ایک تاثر
وسیم جیلانی (بالاپور، مہاراشٹر)

اردو ادب میں مختصر افسانہ اپنی الگ پہچان رکھتا ہے، لیکن جب بات افسانچے کی ہو تو یہ صنف اپنے اختصار، گہرائی اور چونکا دینے والے انجام کے باعث مزید توجہ طلب ہو جاتی ہے۔ افسانچہ محض چند جملوں پر مشتمل ہوتا ہے، لیکن اگر اسے ہنر مندی سے لکھا جائے تو یہی مختصر تحریر ایک مکمل کہانی بن جاتی ہے جو گہرا تاثر اور بامعنی پیغام دیتی ہے۔ علیم اسماعیل کے افسانچوں کا مجموعہ ’تماشا‘ اس صنف کی ایک اچھی مثال ہے۔

علیم اسماعیل کے افسانچوں کا مجموعہ ’تماشا‘ ایک قابلِ توجہ مجموعہ ہے۔ سنہ 2024 میں ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس نئی دہلی سے شائع اس مجموعے میں سو افسانچے شامل ہیں۔ افسانچہ گہرائی، اختصار اور اثرانگیزی کا امتزاج ہوتا ہے۔ اس طرح یہ کتاب افسانچے کی صنف کو استحکام بخشتی ہوئی نظر آتی ہے۔ ’تماشا‘ میں موجود ہر افسانچہ اپنے اندر زندگی کے کسی نہ کسی پہلو کو سمیٹتا ہے جو قاری کو غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔

مجموعے میں شامل افسانچے زندگی کے مختلف پہلوؤں، سماجی مسائل، انسانی جذبات اور معاشرتی رویوں کا عمیق تجزیہ پیش کرتے ہیں۔ علیم اسماعیل کے قلم کی خوبی یہ ہے کہ وہ کم سے کم الفاظ میں ایک گہرا اور موثر پیغام دینے میں کامیاب رہتے ہیں۔ ان کے اسلوب میں سادگی اور شائستگی ہے، لیکن یہ سادگی سطحی نہیں بلکہ ایک گہرے تجربے اور مشاہدے کی عکاس ہے۔ 

کتاب کی ابتدا میں شامل افسانچے— یقین، تماشا، رنگ بدلو، دو مونہی کیتلی، ناٹک، میرا ضمیر، آنکھیں، قاتل کون؟، میری آتما— ایسے ہیں کہ قاری پر آغاز سے ہی سحر طاری ہو جاتا ہے۔ جیسے ہی ان افسانچوں کے الفاظ آنکھوں کے دریچے سے دل میں اترتے ہیں، ایک ایسی دنیا میں کھینچ لے جاتے ہیں جہاں حقیقت اور تخیل کی سرحدیں مدھم ہونے لگتی ہیں۔ ہر افسانچہ ایک ایسا جادوئی دروازہ ہے جو کھلتے ہی پڑھنے والے کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ 

افسانچہ تخلیق کرنے میں ایک بڑی دشواری یہ ہوتی ہے کہ کہانی اور جذبات کو مختصر الفاظ اور مؤثر انداز میں پیش کیا جائے۔ علیم اسماعیل اس چیلنج کو خوبصورتی سے عبور کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کی کہانیاں نہ صرف جامع اور مختصر ہوتی ہیں بلکہ ان کا اختتام اکثر چونکانے والا ہوتا ہے، جو قاری کو کہانی پر دوبارہ غور کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔

’تماشا‘ میں ایسے کئی افسانچے ہیں جو دل پر گہرا اثر چھوڑتے ہیں۔ علیم اسماعیل نے انسانی بے حسی، اپنی ذات کے خول میں قید رہنا، محبت کے نازک جذبات اور دیگر کئی موضوعات پر افسانچے تخلیق کیے ہیں۔

’تماشا‘ مجموعی طور پر ایک اچھی کتاب ہے، لیکن بعض قارئین کے لیے اس کتاب کے تمام افسانچوں کی گہرائی کو سمجھنا شاید ایک چیلنج ہو، خاص طور پر ان قارئین کے لیے جو روایتی کہانیوں کے عادی ہیں۔ لیکن یہ کتاب ان لوگوں کے لیے ایک بہترین انتخاب ثابت ہوگی جو ادب کی مختلف جہتوں کو دریافت کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

علیم اسماعیل نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے ثابت کیا ہے کہ کم الفاظ میں بھی بڑے خیالات اور گہرے جذبات کو مؤثر انداز میں پیش کیا جا سکتا ہے۔ یہ کتاب نہ صرف سنجیدہ قارئین بلکہ ان لوگوں کے لیے بھی دلچسپی کا باعث ہے جو مختصر مگر پراثر تحریریں پڑھنا پسند کرتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ کتاب ’تماشا‘ اردو ادب میں افسانچوں کی روایت کو آگے بڑھانے میں ایک اہم ثابت ہوگی۔

No comments:

Post a Comment