Tuesday, June 20, 2017

افسانہ ۔ اذان

ایم مبین

   اذان   


شاید وہ رات کا آخری پہر ہو گا۔ معمول کے مطابق آنکھ کھل گئی تھی۔ اُس نے اندازہ لگایا، شاید ۴  بج رہے ہوں  گے۔ آج آنکھ معمول سے کچھ پہلے ہی کھل گئی ہے۔
اب آنکھ بند کر کے لیٹے رہنا بھی لاحاصل تھا۔ نیند تو آنے سے رہی۔ صبح تک کروٹیں  بدلنے سے بہتر ہے کہ باہر آنگن میں  بیٹھ کر صبح کی ٹھنڈی ہواؤں  کے جھونکوں  سے لُطف اندوز ہوا جائے۔ اُس نے بستر چھوڑا اور گھر کے باہر آیا۔

چاروں  طرف تاریکی چھائی ہوئی تھی۔ گھر کے باہر بندھے جانوروں  نے تاریکی میں  بھی اُس کی آہٹ سُن لی یا شاید اُنھوں  نے اُس کی مانوس بُو سونگھ لی ہو۔ وہ اپنی اپنی زُبانوں  میں  اُسے آوازیں  دے کر اپنی موجودگی کا احساس دِلانے لگے۔
" اچھا بابا ! مجھے پتہ ہے تم لوگ جاگ رہے ہو، آتا ہوں۔ " کہتا وہ مویشی خانے کے پاس آیا۔ اُسے دیکھ کر گائے نے منہ سے آواز نکالی۔
" اب چپ بھی ہو جا۔" اُس نے گائے کی پیٹھ تھپتھپائی تو وہ زُبان نکال کر اُس کا ہاتھ چاٹنے لگی۔ اُس کے بعد بھینس، بیل، بکریاں  اور بھیڑیں  شور مچانے لگے۔
وہ اُن کو آوازیں  دیتا چپ رہنے کے لئے کہنے لگا۔
تھوڑی دیر بعد سب چپ ہو گئے تو وہ آنگن میں  رکھی کھاٹ پر آ کر بیٹھ گیا اور تمباکو نکال کر چلم بھرنے لگا۔
چلم کا ایک کش لے کر اُس نے دُور گاؤں  کی طرف ایک نظر ڈالی۔ اندھیرے میں  ڈوبا گاؤں  اُسے کسی آسیبی حویلی کی طرح دِکھائی دے رہا تھا۔وقت دھیرے دھیرے سرک رہا تھا اور اُفق پر ہلکی ہلکی سُرخی نمودار ہو رہی تھی۔لیکن ماحول پر سکوت کا وہی عالم تھا۔ اُس کے کان اُس سکوت کو توڑنے والی ایک آواز کے منتظر تھے۔
اُس سکوت کو سب سے پہلے توڑنے والی اللہ بخش کی اذان کی آواز۔
لیکن اُفق پر پَو پھٹ گئی۔ ہنومان، وِشنو، جلرام، شنکر کے مندروں  کی گھنٹیاں  بجنے لگیں۔ ساتھ بجنے والی تمام منادر کی گھنٹیوں  سے ایک بے ہنگم شور نے سنّاٹے کے سینے کو درہم برہم کر دیا۔
اور پھر وہ بھی خاموش ہو گئے۔
لیکن اللہ بخش کی آواز نہ تو فضا میں  اُبھری اور نہ اُسے اللہ بخش کی اذان کی آواز سنائی دی۔
ایک لمبی سانس لے کر اُس نے اپنے سر کو جھٹک دیا۔
وہ بھی کتنا بے وقوف ہے۔
وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ اللہ بخش اپنے بچے ہوئے خاندان کے ساتھ اُس گاؤں  کو چھوڑ کر جا چکا ہے۔ جس مسجد کے آنگن سے وہ اذان دیتا تھا وہ مسجد اب کھنڈر میں  تبدیل ہو چکی ہے۔ اُس کے اندر اب ہنومان کی مورتی رکھی ہوئی ہے۔پھر بھلا اُسے اللہ بخش کی اذان کی آواز کس طرح سُنائی دے سکتی ہے۔
اب تو اللہ بخش کو گاؤں  چھوڑے مہینوں  ہو گئے ہیں۔ پھر بھی اُس کے کان اللہ بخش کی اذان کے منتظر کیوں  رہتے ہیں؟
شاید اِس لئے کہ وہ گذشتہ چالیس برسوں  سے اللہ بخش کی اذان کی آواز سُن رہا تھا۔
دِن کے شور میں  تو اُسے اللہ بخش کی اذان کی آواز سُنائی نہیں  دیتی تھی۔لیکن فجر میں  اور عشاء میں  اُس کی اذان کی آواز ہر کوئی صاف صاف سُن سکتا تھا۔
اُسے اذان کی آواز سُن کر ایک قلبی سکون ملتا تھا۔ یہ سوچ کر کہ میری طرح میرا دوست بھی جاگ گیا ہے اور وہ اپنے خدا کی عبادت میں  لگا ہے اور عبادت میں  شریک ہونے کے لئے دُوسرے بندوں  کو پکار رہا ہے۔
چالیس سالوں  میں  ایسے بہت کم مواقع آئے تھے جب اُس نے اللہ بخش کی اذان نہ سُنی ہو۔اِن موقعوں  میں  وہ دِن تھے جب وہ کسی کام سے گاؤں  سے باہر گیا ہو یا پھر اللہ بخش کسی کام سے باہر گیا ہو گا۔
چالیس سالوں  سے وہ اذان کی آواز سُن رہا تھا۔ لیکن گذشتہ ۱۶۰ سالوں  سے وہ اللہ بخش کو جانتا تھا۔ایسا کوئی بھی دِن نہیں  گزرا تھا جب اُس کا اور اللہ بخش کا سامنا نہیں  ہوا ہو یا بات چیت نہ ہوئی ہو یا دونوں  نے مل کر ساتھ تمباکو نہ پی ہو۔
لیکن وہی اللہ بخش ایک دِن اُسے، اِس گاؤں  کو چھوڑ کر چلا گیا، جس میں  وہ پیدا ہوا تھا، پلا بڑھا تھا، جہاں  اُس کا گھر تھا، کھیت تھے، مسجد تھی۔ جسے اُس نے اپنے ہاتھوں  سے بنایا تھا۔
اور وہ جاتے ہوئے اُسے روک نہیں  سکا تھا۔
اُس میں  اللہ بخش کو روکنے کی ہمّت بھی نہیں  تھی۔ وہ کس منہ سے اُس سے کہتا۔
" اللہ بخش اِس گاؤں  کو چھوڑ کر مت جاؤ ! یہ گاؤں  تمہارا ہے، تم یہیں  پیدا ہوئے ہو۔ ہم ساتھ کھیلے ہیں ، بڑے ہوئے ہیں ، یہاں  تمہاری اولادیں  پیدا ہوئی ہیں ، اِس گاؤں  کے قبرستان میں  تمہارے ماں  باپ اور کئی رشتہ دار دفن ہیں۔ اِس گاؤں  کو چھوڑ کر مت جاؤ۔ "
اُسے پتا تھا کہ اگر وہ ایسا کہتا تو اللہ بخش کا ایک ہی جواب ہوتا۔
" رام بھائی ... ! اِس گاؤں  نے میرا جوان بیٹا چھین لیا، میرا دُوسرا بیٹا اپاہج ہو گیا، میری بہو کی طرف ناپاک ہاتھ بڑھے، لیکن میری بہو نے اُن ناپاک ہاتھوں  کو اپنے جسم کا لمس دینے سے قبل اپنی جان دے دی،اِس گاؤں  میں  میری بیٹیوں  کی عصمت تار، تار ہونے ہی والی تھی، خدا نے کسی طرح اُنھیں  بچا لیا، میرے اس کھیت کو جلا کر راکھ کر دیا گیا جو چار مہینے تک اپنے خون سے سینچ، سینچ کر میں  نے لہلہائے۔ اِس گاؤں  میں  میرے پیار کے شِوالے، میرے گھر کو توڑ دیا تھا، مسجد کو کھنڈر بنا کر اُس میں  ہنومان کی مورتیاں  رکھ دی گئیں۔ اب آگے اِس بات کی کیا گیارنٹی ہے کہ میرے کسی بیٹے کی جان لینے کی کوشش نہیں  کی جائے گی، میری بیٹیوں  کی طرف ہوسناک نظریں  نہیں  اُٹھیں  گی۔ میری عبادت گاہ مسمار نہیں  کی جائے گی ؟ "
اللہ بخش کی اِس بات کا کسی کے پاس جواب نہیں  تھا۔
اُس کی آنکھوں  کے سامنے سب کچھ ہوا تھا۔ مسجد توڑی گئی تھی اور اُس میں ہنومان کی مورتیاں  رکھی گئی تھیں ، اُس کے کھیت اور گھر جلائے گئے تھے، اُس کے بیٹوں  کو ترشولوں  سے وار کر کے مارا گیا تھا۔
اُس کی بہو، بیٹیوں  کی طرف ہوسناک ہاتھ بڑھے تھے۔
وہ چپ چاپ تماشہ دیکھتا رہا تھا۔
کسی کو روک نہیں  سکا تھا۔ گاؤں  کے کسی بھی فرد نے ان بلوائیوں کو روکنے کی کوشش نہیں  کی تھی۔
جن لوگوں  نے یہ سب کچھ کیا وہ سب اِس کے اپنے تھے، اِسی گاؤں  کے لوگ، جو اِس گاؤں  میں  پل کر جوان ہوئے تھے، وہ اللہ بخش کی گود میں  کھیلے تھے، اُس کے کھیتوں  سے آم چرا کر اُنھوں  نے کھائے تھے۔
جسے وہ اللہ بخش چاچا کہتے تھے، اُن ہی لوگوں  نے اُس کے خاندان کے ساتھ یہ سب کیا تھا۔
وہ اور اُس کے جیسے سیکڑوں  لوگ تماشہ دیکھتے رہے تھے اور اللہ بخش کو پُرسہ دینے، اپنی دوستی، تعلقات کا یقین دِلانے کے لئے اُس وقت پہنچے تھے جب اُس کا سب کچھ لُٹ گیا تھا۔
جس وقت وحشت کا یہ ننگا ناچ ہوا تھا، اُس وقت اللہ بخش گاؤں  میں  نہیں  تھا۔
وہ کسی کام سے شہر گیا تھا۔ جب وہ شہر سے لوٹا تو سب کچھ برباد ہو گیا تھا۔
اگر اللہ بخش گاؤں  میں ہوتا اور اُس کے سامنے یہ سب کچھ ہوتا تو وہ شاید زندہ نہیں  رہتا۔
یا تو وہ اُس کے بڑے بیٹے کی طرح مار دیا جاتا یا پھر یہ سب اپنی آنکھوں  سے دیکھنے کے بعد خود مر جاتا۔
اِس کے بعد وہ گاؤں  میں  نہیں  رہ سکا، اُسے اپنے زخمی خاندان کو لے کر شہر سے جانا پڑا۔
شہر سے آنے کے بعد تو اُس کا گاؤں  میں  رہنا اور بھی مشکل ہو گیا۔ اُسے دھمکیاں  ملنے لگیں۔ گاؤں  چھوڑ کر چلے جاؤ ورنہ گذشتہ بار جو نہیں  ہوا اِس بار وہ ہو گا۔ اِس بار کوئی نہیں  بچ پائے گا۔
اِس گاؤں  میں  پیدا ہوئے، پلے، بڑھے اللہ بخش کے ہزاروں  دوست، شناسا تھے، ہر کوئی اُسے جانتا تھا، ہر کسی کے اُس کے ساتھ تعلقات تھے۔
سب اللہ بخش کو تسلّی دینے گئے تھے۔
" جو ہوا بہت برا ہوا۔ "
" اگر وہ برا ہو رہا تھا تو آپ لوگوں  نے اُسے روکا کیوں  نہیں  ؟ "
اللہ بخش جب اُن سے سوال کرتا تو سب لاجواب ہو جاتے۔
اِس لئے جب اُس نے اپنے خاندان کے ساتھ گاؤں  چھوڑنے کا فیصلہ کیا تو چند ہی لوگوں  نے اُسے روکنے کی کوشش کی۔
" میں  مانتا ہوں ، لیکن جو دھمکیاں  مجھے روزانہ مل رہی ہیں ، اُن کا کیا ہو گا ؟ اِس بات کی کیا ضمانت ہے کہ جو کچھ میرے خاندان کے ساتھ ہوا دوبارہ نہیں  ہو گا،ہم اِس گاؤں  میں  پہلے ہی کی طرح محفوظ رہیں  گے ؟ "
لیکن اِس بات کی کوئی بھی ضمانت نہیں  دے سکا۔
" وہ بچے ہیں  اور بہک گئے ہیں ، اِس طرح بہک گئے ہیں  یا بہکا دئے گئے ہیں  کہ اُن کو راہ پر لانا ناممکن ہے اور تم تو جانتے ہو ؟ آج کل کے نوجوان کسی کی نہیں  سنتے ہیں۔ " اللہ بخش کو جواب ملتا۔
" تو اِس کا مطلب یہی ہے کہ مجھے اپنے خاندان والوں  کے ساتھ یہ گاؤں  چھوڑنا پڑے گا۔ تمہارے بچے نہیں  چاہتے ہیں  کہ ہم لوگ اِس گاؤں  میں  رہیں ، جو میرا اپنا گاؤں  ہے۔ تم میں  اپنے بچوں  کو روکنے کی طاقت نہیں  ہے، اِس کا مطلب بھی صاف ہے کہ تم بھی اپنے بچوں  کے جرم میں  برابر کے شریک ہو۔ تو ٹھیک ہے، اب میں  کوئی خطرہ نہیں  لینا چاہتا۔ مجھے اور میرے خاندان کو کہیں  نہ کہیں  تو پناہ مل ہی جائے گی۔ اللہ کی زمین بہت بڑی ہے۔ "
جس دِن اللہ بخش کا خاندان گاؤں  چھوڑ کر گیا، اُسے اور اُس کے جیسے چند لوگوں  کو بہت دُکھ ہوا، لیکن گاؤں  میں  جشن منایا گیا۔ اللہ بخش کے گھر کی اینٹوں  کو تو ڑ، توڑ کر، مسجد کو توڑ کر اپنی کامیابی، فتح پر رقص کیا گیا۔ اللہ بخش کے کھیت پر قبضہ کر کے اُس کے حصّے بخرے کئے گئے۔
وہ چلا گیا، لیکن اُس کے جانے کے ساتھ اُس سے وابستہ سالوں  کی یادیں  نہیں  جاسکیں۔
وہ اللہ بخش جس کے ساتھ بچپن سے وہ کھیلتا، کودتا آیا تھا۔
جو اُس کے ساتھ ساتھ گاؤں  کی اسکول میں  پڑھا تھا۔
جس کے ساتھ وہ گاؤں ، کھیت سے وابستہ ہر مسئلے پر بحث کرتا تھا اور اللہ بخش کے نیک مشورے قبول کرتا تھا۔
عید، بقر عید کے دِن وہ جس اللہ بخش کے گھر شیر خرمہ کھانے جاتا تھا، محرم کے ایّام میں  شربت اور کھچڑا کھانے جاتا تھا، دیوالی، نو راتری پر جس کو وہ اپنے گھر بلاتا تھا۔
نو راتری کے تہوار پر جب اللہ بخش کاٹھیاواڑی لباس پہن کر ڈانڈیا کھیلتا تو کوئی اُسے پہچان نہیں  پاتا تھا کہ اللہ بخش ہے، جو مسلمان ہے، گاؤں  کی اکلوتی مسجد کا مؤذّن ہے، پیش اِمام ہے، گاؤں  کے مسلمان بچوں  کو عربی کی تعلیم دیتا ہے اور اُنھیں  دین کی باتیں  بتاتا، سکھاتا ہے۔
سویرے جاگنے کے بعد اللہ بخش کی اذان کی آواز اُسے بہت بھلی لگتی تھی۔ رات میں  جب تک اذان کی آواز اُس کے کانوں  میں  نہیں  پڑتی تھی تب تک اُسے میٹھی گہری نیند نہیں  آتی تھی۔
ایک دِن اُس نے اللہ بخش سے پوچھا تھا۔
" بھائی اللہ بخش ! تم اِس اذان میں  کیا پکارتے ہو ؟ "
" اِس اذان میں  اللہ کی تعریف اور اللہ کی عبادت کے لئے آنے کا بلاوا ہوتا ہے۔ "
اُس کا لڑکا شہر سے ٹیپ ریکارڈر لے آیا تھا۔
ایک دِن جب اللہ بخش کسی کام سے اُس کے گھر آیا تو وہ اُس سے بولا۔
" اللہ بخش ! تم اذان پکارو میں  تمہاری اذان کو ٹیپ کرنا چاہتا ہوں۔ "
" نہیں  رام بھائی ! اذان کسی بھی وقت نہیں  دی جاتی، اِس کے اوقات مقرر ہیں۔ اُن ہی اوقات میں  اذان دی جاتی ہے۔ "
لیکن جب وہ اللہ بخش سے بہت زیادہ اصرار کرنے لگا کہ وہ اُس کی اذان کو ٹیپ کرنا ہی چاہتا ہے تو اللہ بخش نے اذان دی اور اُس نے اُسے ٹیپ کر لی۔
" میں  نے آج تمہارے گھر میں  اذان دی ہے۔ دیکھنا اِس اذان کی قوت سے تمہارے گھر میں  جو بلائیں ، آسیب، شیطان، بھوت، پریت آتما ہوں  گی ؟ بھاگ جائیں  گی۔ "
اور کچھ دِنوں  بعد سچ مچ اُسے محسوس ہوا کہ اُس کے گھر میں  واقعی بہت نمایاں  تبدیلی ہوئی ہے۔ جن بلاؤں ، آسیب کا گھیرا اُس کے گھر میں  تھا، اللہ بخش کی اذان سے وہ دُور ہو گیا۔
گذشتہ پچاس سالوں  میں  کئی بار پورا ملک فسادات میں  جھلسا، لیکن اُن کی گرم ہوا کبھی بھی اُن کے چھوٹے سے گاؤں  کو نہیں  چھو سکی۔ لیکن وہ گذشتہ چار پانچ سالوں  سے بڑی شدّت سے محسوس کر رہا تھا کہ اُن کی آل اولاد کے خیالات میں  بڑی تیزی سے تبدیلی آ رہی ہے۔ اُن کی نسل کے لوگ کبھی بھی اللہ بخش اور اُس کے مذہب کے لوگوں  کے بارے میں  باتیں  نہیں  کرتے تھے۔
لیکن یہ نئی نسل اب صرف اللہ بخش اور اُس کے مذہبی بھائیوں  کے بارے میں  ہی باتیں  کرتے ہیں  اور اُن کی باتوں  میں  نفرت کا زہر بھرا ہوتا ہے۔ گاؤں  کا ہر چھوٹا بڑا اللہ بخش کی عزت کرتا تھا لیکن یہ چھوٹے موقع ملنے پر بات بات پر اللہ بخش کی توہین کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، اُس سے اور اُس کے خاندان سے اُلجھتے ہیں۔
کبھی کبھی اللہ بخش بڑے دُکھ سے کہتا تھا۔
" رام بھائی ! کچھ سمجھ میں  نہیں  آ رہا ہے۔ گذشتہ پچاس سالوں  میں  جو میرے یا میرے خاندان کے ساتھ اِس گاؤں  میں  نہیں  ہوا، وہ ہو رہا ہے۔ "
" چھوٹی چھوٹی باتوں  پر دِل کیوں  چھوٹا کرتے ہو اللہ بخش ! ہم ہیں  نا، یہ سب تو چلتا رہتا ہے۔ " وہ اُسے سمجھاتا۔
اور اُس دِن وہ سب کچھ ہو گیا۔
اچانک ہوا یا پہلے سے طے شدہ تھا۔ اِس بارے میں  وہ کچھ بھی نہیں  جانتا تھا۔
اور اللہ بخش کو گاؤں  چھوڑ کر جانا پڑا۔
اب گاؤں  میں  صرف اللہ بخش کی یادیں  اور اُس کی کھنڈر سی نشانیاں  ہیں۔ اُس کا ٹوٹا ہوا گھر، جلی ہوئی مسجد جس میں  ہنومان کی مورتیاں  رکھی ہیں۔ کھیتی جس پر پتہ نہیں  کتنے لوگوں  کا قبضہ ہے۔
جنھوں  نے یہ سب کیا تھا کیا شاید وہ بھول بھی گئے ہوں  گے ؟
لیکن وہ اُسے نہیں  بھول سکا۔
اُسے بار بار یہ محسوس ہوتا ہے اللہ بخش جیسے اُس کی رگ، رگ میں  بسا ہوا ہے۔ اُسے اللہ بخش کی ایک ایک بات یاد آتی ہے۔ اللہ بخش کے ساتھ گزارا ایک ایک لمحہ یاد آتا ہے۔ اُسے ہر جگہ اللہ بخش کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ پتا نہیں  اُن لوگوں  کو اللہ بخش کی کمی محسوس ہوتی بھی ہے یا نہیں ، جنھوں  نے اُسے گاؤں  چھوڑنے پر مجبور کیا تھا۔ اُسے گاؤں  چھوڑنے پر مجبور کر کے پتا نہیں  اُن کے کس جذبۂ اَنا کو تسکین ملی ؟
وہ روزانہ جاگتا ہے تو اُس کے کان اللہ بخش کی اذان سننے کے لئے بیتاب رہتے ہیں۔ اُسے پتا تھا کہ اللہ بخش کی اذان کی آواز سنائی نہیں  دے گی۔کیونکہ اللہ بخش یا کوئی اور میاں  بخش اِس گاؤں  میں  نہیں  رہتا ہے۔ پھر بھی اُس کے کان اذان کی آواز سننا چاہتے تھے۔
اُسے اللہ بخش کی اذان سن کر ایک ذہنی سکون ملتا تھا۔
لیکن اب اُسے وہ آواز سنائی نہیں  دیتی ہے تو دِن بھر ایک بے چینی کا شکار رہتا ہے۔
جب اُس کی بے چینی حد سے زیادہ بڑھ جاتی ہے تو وہ ٹیپ ریکارڈر کے پاس جاتا اور اُس میں  وہ کیسیٹ لگاتا جس میں  اُس نے ایک دِن اللہ بخش کی اذان ٹیپ کی تھی۔
اور جب وہ پورے والیوم میں  اللہ بخش کی اذان سنتا تو اُس کے دِل کو بڑا سکون ملتا تھا۔
حیّٰ علی الفلاح، حیّٰ علی الفلاح .......


No comments:

Post a Comment