Friday, June 23, 2017

راجندر سنگھ بیدی کا شاہکار افسانہ :۔لاجونتی ایک تجزیاتی مطالعہ

گلشن جہاں ،سنبھل



راجندر سنگھ بیدی کا شاہکار افسانہ :۔لاجونتی ایک تجزیاتی مطالعہ


افسانہ اردو نثر کی سب کی سب سے مقبول ترین صنف ہے جس کو انگریزی زبان میں Short story کہا جاتا ہے۔افسانے سے مراد ایسی نثری کہانی سے ہے،جس میں کسی شخص کی زندگی کا ایک اہم اور دلچسپ پہلو پیش کیا جائے،جس میں ابتداء،ارتقاء او ر خاتمہ ہو۔لیکن افسانے کا فن اتنا آسان نہیں ہے کچھ معیارات ہیں جو افسانے کی کامیابی کی راہ ہموار کرتے ہیں ،افسانہ مختصر لیکن جامع اور مربوط پلاٹ کے تحت تخلیق کیا جا نا چاہئے۔
یوں تو اردو افسانہ نگاری کا آغاز نصف انیسوی صدی سے ہو چکا تھا لیکن اس کی باقاعدہ اور معیاری بنیاد پریم چند نے رکھی۔پریم چند نے اردو افسانے کو مستحکم بنیاد عطا کی۔پریم چند کے بعد اردو افسانہ نگاری کی تاریخ میں کرشن چندر،راجندر سنگھ بیدی ،سعادت حسن منٹو اور عصمت چغتائی یہ چاروں ایسے معتبر افسانہ نگار ہیں ،جنہوں نے فن افسانہ نگاری کو عروج عطا کیا اوراردو افسانہ نگاری میں موضوع کی وسعتیں پیدا کیں۔ ان میں راجندر سنگھ بیدی ؔ امتیازی شخصیت کے مالک ہیں ۔بیدی خارجی احوال سے زیادہ باطن کی واردات کے فنکار ہیں ۔راجندر سنگھ بیدی کے کردار زندگی کی پیچیدگیوں،نامحرومیوں کی جیتی جاگتی تصویر نظر آتے ہیں۔
راجندر سنگھ بیدیؔ : ۱۹۱۵۔۱۹۸۴
اردو افسانے کی روایت میں ایک نمایاں نام راجندر سنگھ بیدی ؔ کا ہے۔بیدیؔ ۱۹۱۵ ء کو سیالکوٹ پاکستان میں پیدا ہوئے۔ان کی والدہ سیوا دیوی ہندو برہمن تھیں اور والد ہیرا سنگھ ذات کے کھتری تھے۔یہ خاندان وید کو اپنا گرنتھ ماننے کے باعث بیدی کہلاتا ہے۔راجندر سنگھ بیدی ؔ کی ادبی زندگی کا آغاز ۱۹۳۲ میں ہوا ابتداء میں انہوں نے محسن لاہوری کے نام سے افسانے لکھے جو مقامی اخبارات ،کالج میگزین میں شائع ہوئے۔ان کے افسانوی مجموعوں میں باسٹھ افسانے،سات مضامین اور خاکے شامل ہیں۔سات مضامین اور سات خاکے ایسے بھی ہیں جو کسی کتاب میں شامل نہیں ہیں۔ان کا پہلا افسانوی مجموعہ دانہ و دام ۱۹۴۰ میں منظر عام پر آیا۔اس کے بعد گرہن ۱۹۴۳،کوکھ جلی ۱۹۴۹،اپنے دکھ مجھے دے دو،ہاتھ ہمارے قلم ہوئے ،مکتی بودھ جیسے افسانوی مجموعے منظر عام پر آئے ،ان تمام افسانوں میں بیدی کا انفرادی رنگ نمایاں ہے ،ان کے فن پاروں میں متوسط طبقے کے متنوع کرداروں ،ان کے رنگارنگ ماحول اور زندگی کے اتار چڑھاؤ سے ایک جہان معنی خلق ہوا ہے۔۱۹۸۴ کو یہ عظیم فنکار ممبئی ہندوستان میں اس دار فانی سے کوچ کر گیا۔
راجندر سنگھ بیدی ؔ نے زندگی کی محرومیاں،اتارچڑھاؤ ،پنجاب کے بدحال لوگوں کی بپتا ،نیم تعلیم یافتہ خاندانوں کی رسمیں،رواداریاں ،پرانی دنیا اور نئے خیالات کی آمیزش ،معاشرے میں رائج روایات کے بندھنوں کو بہت قریب سے دیکھا تھااور ان تمام کے نتائج سے بھی بخوبی واقف تھے۔اسی لئے بیدی کے افسانوں میں انسانی زندگی کی تلخیوں اور کرب کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔بیدی ؔ کے افسانوں میں متوسط طبقے کی ہندوستانی عورت کے کردار اور مزاج کی جو تصویر کشی ملتی ہے ا س کو ان کے افسانہ نگاری کا نقطہ عروج کہا جاتا ہے۔راجندر سنگھ بیدیؔ نے زندگی کے اہم تجربات کو اپنی کہانیوں کا موضوع بنایا اورانسانی جزبات و احساسات ،نفسیات کی گرہیں بہت چابکدستی سے کھولی ہیں۔
ان کا محور جنس و غم ہے لیکن بیدی ؔ کے یہاں غم کے اظہار کی صرف ایک صورت ہی نظر نہیں آتی بلکہ ہر کہانی میں نت نئی صورت نظر آتی ہے۔
بیدی کا شاہکار افسانہ ؛لاجونتی ایک تجزیاتی مطالعہ
’’ہتھ لائیاں کملاں نی لاجونتی د ے بوٹے‘‘
راجندر سنگھ بیدی ؔ کا شاہکار افسانہ لاجونتی ان کے بہترین افسانوی مجموعے اپنے دکھ مجھے دے دو میں شامل پہلا افسانہ ہے۔لاجونتی کا پس منظر تقسیم ہند کے بعد کے حالات ہیں۔راجندر سنگھ بیدی ؔ نے اس افسانے میں ہند و پاک کے بٹوارے کے بعد انسانی زندگیوں میں آئے سیلاب کو قلمبند کیا ہے کہ کس طرح ملک کی تقسیم کے بعد بڑے پیمانے پر ہجرت کا عمل شروع ہو گیاجس کی وجہ سے دونوں ممالک کو مختلف مسائل سے دو چار ہونا پڑا۔افسانہ لاجونتی ان مغویہ عورتوں کے درد و کرب کی روداد بیان کرتا ہے جو بدقسمتی سے تقسیم کے بعد اپنے شوہر وخاندان سے جدا ہو کر سرحد کے اس پار پہنچ گئیں تھیں۔ان مغویہ عورتوں میں سندرلال کی بیوی لاجونتی بھی تھی جو سندر سے دور سرحد کے اس پار چلی گئی تھی۔سندرلال اور لاجونتی کی جدائی کے بعد سندر کو لاجو پر کئے گئے ظلم یاد آنے لگے تھے اور اس کو اپنی غلطیوں کا احساس تھا۔اس کا دل لاجو کے بارے میں سوچ کر مضطرب ہو جاتا تھا کہ لاجونتی اس کا ہر ستم خنداں پیشانی کے ساتھ سہتی تھی ،اب لاجو کہاں ہوگی،جانے کس حال میں ہوگی ‘ہماری بابت کیا سوچ رہی ہوگی؟‘وہ کبھی آئے گی بھی کہ نہیں۔اب توسندرلال کی لاجونتی کے واپس آنے کی امید بھی ٹوٹ چکی تھی اور اس نے لاجونتی کے بارے میں سوچنا ہی چھوڑ دیا تھا۔سندرلال کا غم اب دنیا کا غم بن چکا تھا۔اس نے اپنے دکھ سے بچنے کہ لئے خود کو لو ک سیوا میں غرق کر دیا تھا اور مغویہ عورتوں کے سلسلے میں چلائے جا رہے پروگرام ’’دل مین بساؤ‘‘کا سکرٹیری چن لیا گیا تھا۔اس پروگرام کے تحت ہند اور پاکستان کے درمیان اغواشدہ عورتوں کا تبادلہ کیا جاتا اور اجڑے ہوئے گھروں کو بسانے کی مہم چلائی جا رہی تھی۔
بالآخر ایک دن اچانک لال چند نے سندرلال کو بدھائی دی کہ میں نے لاجو بھابھی کو دیکھا ہے یہ سن کر سندرلال کے ہاتھوں سے چلم گر گئی۔سندرلال نے بہت حیرانی سے پوچھا کہاں دیکھا ہے؟لال چند نے اطلاع دی کہ ’’واگہ کی سرحد پر‘‘۔سندرلال کا دل بے چین ہو اٹھا اور وہ سرحد جانے کی تیاری کرنے لگاکہ اسے لاجو کہ آنے کی خبر ملی،وہ گیا اور اسے اپنے ساتھ گھر لے آیا۔لیکن اب سب کچھ تبدیل ہو چکا تھا۔جب سے لاجو ا غوا کے بعد واپس ہوئی تھی تب سے سندرلال کا رویہ ،لاجو کے ساتھ سلوک پہلے کے جیسا بالکل نہ رہا تھا بلکہ وہ لاجو کے ساتھ بہت اچھے سے پیش آتا تھا اور اپنی لاجو کو دیوی کہہ کر پکارتا تھا۔لاجونتی اپنے شوہر کے اس بدلے ہوئے رویےّ کو دیکھ کرحیران و پریشان رہنے لگی تھی۔لاجونتی اپنی ساری روئداد بیان کرکے اپنے دل کے بوجھ کو ہلکا کرنا چاہتی تھی لیکن سندرلال کچھ سننے کو تیار نہ تھا وہ ہمیشہ لاجو کو ٹال دیا کرتا تھا کہ ’’چھوڑ ویتی باتوں میں کیا رکھا ہے۔‘‘سندرلال نے اب اپنی بیوی لاجو کو مارنا پیٹنا بھی چھوڑ دیا تھا۔لیکن لاجونتی کو اپنا پہلے جیسا شوہر چاہئے تھا،وہ دنیا کے لئے خوش تھی ،لیکن اس کی روح بہت دکھی تھی۔جوں جوں وقت گزرتا جا رہا تھا سندرلال اور لاجونتی کے درمیان فاصلے بڑھنے لگے اور دونوں شک میں مبتلا رہنے لگے۔لاجونتی دل ہی دل میں یہ سوچ کر گھٹتی رہتی کہ اب وہ اپنے شوہر کے لئے لاجو نہیں بن سکتی ،اغوا کے بعد واپسی سے وہ دیوی بن چکی ہے۔راجندر سنگھ بیدی ؔ نے زیر نظر افسانہ میں تقسیم ہند کے بعد درپیش آنے والے مسائل کوقلمبند کرنے کے ساتھ ساتھ انسانی نفسیات کی گرہیں بھی بڑی چابکدستی سے کھولیں ہیں۔مثال کے طور پر افسانے کا ایک اقتباس مندرجہ ذیل ہے:،
’’اور لاجونتی کی من کی من میں ہی رہی۔وہ کہہ نہ سکی ساری بات چپکی دبکی پڑی رہی اور اپنے بدن کی طرف دیکھتی رہی جو کہ بٹوارے کے بعد اب ’ دیوی‘کا بدن ہو چکا تھا۔لاجونتی کا نہ تھا۔وہ خوش تھی بہت خوش۔لیکن ایک ایسی خوشی میں سرشار جس میں ایک شک تھا اور وسوسے۔وہ لیٹی لیٹی اچانک بیٹھ جاتی جیسے انتہائی خوشی کے لمحوں مین کوئی آہٹ پا کر ایکا ایکی اس کی طرف متوجہ ہو جائے۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
راجندر سنگھ بیدی کی لاجونتی قاری کے دل و دماغ پر بہت گہرا اثر کرتی ہے۔لاجونتی کا کردار ایک زندہ کردار ہے جو انسانی زندگی کے پیچیدہ پہلوؤں کو منفرد انداز میں ا جاگر کرتی ہے ۔راجندر سنکھ بیدی نے اس کہانی میں بھی اشارے و کنایے سے کام لیا ہے ،ملک کی تقسیم سے پیش آنے والے مسائل کو انفرادی اسلوب میں بیان کیا ہے تو دوسری طرف ہمارے معاشرے میں عورت کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں سے بھی پردہ اٹھا یا ہے۔افسانہ لاجونتی ان تمام مغویہ عورتوں کے درد ،غم و الم۔کسک ،خلش کو سیدھا قاری کے دل میں اتار دیتا ہے جن کی اغوا سے واپسی کے بعد معاشرے کے لوگوں نے ان کو اپنا تو لیا تھا لیکن وہ دوبارہ بس کر بھی اجڑ گئیں تھیں ۔بیدیؔ کے افسانے لاجونتی کا آخری اقتباس قاری کو اس قدر متاثر کر دیتا ہے کہ لاجونتی ذہن کے گوشے گوشے میں بس جاتی ہے کہ ہمارے معاشرے کی نظر میں عورت کا وجود اتنا کمزور ہے کہ جیسے چھوئی موئی کا پودا ہاتھ لگانے سے کمہلاجاتا ہے ویسے ہی کسی دوسرے مرد کے ہاتھ لگانے کے تصور سے بھی عورت دوبارہ کبھی اپنے شوہر کی بیوی نہیں بن پاتی یہی عورت کا وجود ہے ۔راجندر سنگھ بیدی ؔ نے لاجو نتی کے اس کرب کو درج ذیل اقتباس میں بیان کیا ہے:۔
’’۔۔۔۔وہ سندرلال کی وہی پرانی لاجو ہوجانا چاہتی تھی جو گاجر سے لڑپڑتی اور مولی سے مان جاتی ۔لیکن اب لڑائی کا سوال ہی نہ تھا۔سندرلال نے اسے یہ محسوس کرا دیا جیسے وہ۔۔۔۔لاجونتی کانچ کی کوئی چیز ہے جو چھوتے ہی ٹوٹ جائے گی۔۔۔اور لاجو آئینے میں اپنے سراپا کی طرف دیکھتی اور آخر اس نتیجے پر پہنچتی کہ وہ اور تو سب کچھ ہو سکتی ہے پر لاجو نہیں ہو سکتی۔وہ بس گئی‘‘ پر اجڑ گئی۔۔سندرلال کے پاس اس کے آنسو دیکھنے کے لئے آنکھیں تھیں اور نہ ہی سننے کے لئے کان!۔۔۔پربھات پھیریاں نکلتی رہیں اور محلہ ملاّشکور کا سدھارک رسالو اور نیکی رام کے ساتھ مل کر اسی آواز میں گاتا رہا۔۔۔۔۔۔‘‘
’’ہتھ لائیاں کملان نی‘لاجونتی دے بوٹے۔۔۔‘‘
مندرجہ بالا تبصرہ و تزکرہ کے بعد یہ عیاں ہو جاتا ہے کہ راجندر سنگھ بیدی ایک کامیاب افسانہ نگار ہیں اور ان کے افسانہ لاجونتی اس کا شاہد ہے ۔آئیے دیکھتے ہیں کہ افسانہ لاجونتی کس طرح ایک بہتر افسانہ ہونے کے ضابطے مکمل کرتا ہے۔بیدیؔ نے یہ افسانہ یوں تو تقسیم ہند کے پس منظر میں لکھا ہے ۔لیکن اپنی کہانی میں اشارہ و کنایہ کا استعمال کرکے اس افسانے کو زیادہ موئثر بنا دیا ہے۔افسانہ کی کامیابی کا انحصار چند مخصوص عناصر پر ہوتا ہے۔اس میں موضوع کا انتخاب ، تمہید،پلاٹ ،کردار،مکالمے،کہانی کا پس منظر اور اختتام افسانہ قابل غور حیثیت رکھتے ہیں۔
راجندر سنگھ بیدی کے افسانے اور موضوع کا انتخاب:۔ راجندر سنگھ بیدی اپنی کہانیوں کے موضوع کا انتخاب بہت سوجھ بوجھ اور سمجھداری کے ساتھ کرتے ہیں۔افسانہ لاجونتی بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔افسانہ لاجونتی پڑھنے کے بعد قاری کو خود بخود ایسا محسوس ہونے لگتا ہے کہ بیدی ؔ نے جس موضوع کا انتخاب کیا ،اس کے ساتھ انصاف کیا ہے ۔اپنی انہیں خصوصیات کے تحت افسانہ لاجونتی اردو ادب کے بہترین افسانوں میں شمار کیا جاتا ہے۔
افسانہ لاجونتی کا عنوان:۔زیر نظر افسانے کا عنوان اس افسانے کی ہیروئن لاجونتی کے نام پر رکھا گیا ہے ، مکمل افسانہ لاجونتی کے ارد گرد گھومتا ہے لیکن دوسری طرف بیدیؔ نے مجموعی تاثر کو بھی ذہن میں رکھتے ہوئے عنوان ’’لاجونتی‘‘ قائم کیا ہے۔
افسانہ لاجونتی کا آغاز:۔کسی بھی افسانے کی تمہید قاری کے دل و دماغ کو بے حد متاثر کرتی ہے گویا افسانے کی تمہید اتنی موثر ہونی چاہئے کہ پڑھنے والا ان ابتدائی جملوں سے پورے افسانے کے بارے میں ایک گہرا تاثر قبول کرے اور پورا افسانہ پڑھنے کے لئے مضطرب ہو جائے۔راجندر سنگھ بیدی اپنے افسانوں کی تمہید بہت دلچسپ،نت نئے انداز میں تخلیق کرتے ہیں۔افسانہ لاجونتی کی ابتداء ایک پنجابی گیت سے ہوتی ہے:،
’’ہتھ لائیاں کملاں نی لاجونتی دے بوٹے۔۔۔۔۔۔‘‘
یہ ابتدائی مصرع جو ایک پنجابی گیت ہے ،تجسس کو بنائے رکھتا ہے اور قاری کو مکمل کہانی پڑھنے کی طرف راغب کرتا ہے۔
افسانہ لاجونتی پلاٹ کے حوالہ سے:۔افسانہ نگار خام مواد کو ترتیب دینے کے لئے جو واقعات کے ربط و تعلق کے مطابق کہانی کا جو ڈھانچہ تیار کرتا ہے اسے پلاٹ کہتے ہیں۔افسانہ لاجونتی کا پلاٹ زندگی کے اصل احوال و واقعات اور تجربات سے مرتب کیا گیا ہے، ،راجندر سنکھ بیدی نے عبارت آرائی سے بھی کام لے کر ایک مربوط اور مسلسل پلاٹ تیار کیا ہے۔
افسانہ لاجونتی اور مکالمے:۔ راجندر سنگھ بیدی کہانی کے موضوع،عنوان،پس منظر اور کرداروں کی نسبت سے مکالموں کا استعمال بخوبی جانتے ہیں۔زیر مطالعہ افسانہ لاجونتی میں جزبات و احساسات اور واقعات کے اعتبار سے کہیں سادہ تو کہیں درد و سوز سے پر مکالمے دیکھنے کو ملتے ہیں۔جب اغوا سے واپسی کے بعد لاجونتی واپس آتی ہے اور لال چند اس کے شوہر سندرلال کو یہ خبر سناتا ہے تو فطری مکالموں کی عمدہ مثال دیکھنے کو ملتی ہے:۔
لا ل چند،‘‘ بدھائی ہو سندرلال‘‘
سندرلال نے میٹھا گڑچلم میں رکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔’’کس بات کی بدھائی لال چند؟‘‘
لال چند،’’ میں نے لاجو بھابھی کود یکھا ہے‘‘
سندرلال کے ہاتھ سے چلم گر گئی اور میٹھا تمباکو فرش پر گر گیا۔’’کہاں دیکھا ہے؟‘‘اس نے لال چند کو کندھوں سے پکڑتے ہوئے پوچھا اور جلد جواب نہ پانے پر جھنجھوڑدیا۔
لال چند ،‘‘ واگہ کی سرحد پر‘‘
سندر لال نے لال چند کو چھوڑ دیا اور اتنا سا بولا’’کوئی اور ہوگی۔‘‘
یہ مکالمے انسان کے فطری جزبات کی عکاسی کرتے ہیں کہ سندرلال اپنی بیوی لاجونتی کی واپسی کی امید کھو چکا تھا ۔لیکن جب لال چند اس کو لاجوکی واپسی کی خبر دیتا ہے تو وہ حیران ہوجاتا ہے اور بے ساختہ اس کے دل کی کیفیت مکالموں میں عیاں ہونے لگتی ہے۔
افسانہ لاجونتی کے کردار:۔افسانہ لاجونتی کے کردار بھی اپنے کردار کی نوعیت کے تقاضوں کو مکمل کرتے ہیں۔سندلال اور اس کی بیوی اس افسانے کے مرکزی کردار ہیں۔سندرلال بحیثیت شوہر سخت دل ہوتا ہے اور اپنی بیوی کو مارتا ہے تو دوسری طرف روایتی عورت ہونے کے ناطے لاجونتی اس کے تمام ظلم خنداں پیشانی کے ساتھ سہتی ہے۔لیکن عورت کے حقیقی کردار اور اس کے تئیں معاشرے کے روایات و نظریات لاجو کی اغوا سے واپسی کے بعد بیدیؔ بڑی چابکدستی کے ساتھ پردہ اٹھاتے ہیں۔لاجونتی کا کردار راجندر سنگھ بیدیؔ کی نایاب تخلیق ہے جو اردو افسانہ نگاری کا اہم کردار تسلیم کیا جاتا ہے۔
اختتام افسانہ:۔افسانے کے اختتام پر انسانی نفسیات کی حقیقت سامنے آجاتی ہے اور افسانہ قاری کے ذہن پر حزنیہ اور فکری کیفیت چھوڑ کر اپنے انجام کو پہنچ جاتا ہے۔ افسانہ لاجونتی اس اغوا عورت کی درد بھری داستان پر ختم ہو جاتا ہے جو بس کر بھی اجڑ گئی تھی اور اب وہ اپنے شوہر کی بیوی لاجو کبھی نہ بن سکتی تھی ، وہ تو صرف اس کے لئے اب دیوی بن چکی تھی۔۔پربھات پھیریاں نکلتی رہیں اور محلہ ملاّشکور کا سدھارک رسالو اور نیکی رام کے ساتھ مل کر اسی آواز میں گاتا رہا۔۔۔
’’ہتھ لائیاں کملاں نی لاجونتی د ے بوٹے‘‘
راجندر سنگھ بیدی افسانے کا اختتام کچھ ایسے فطری انداز میں کرتے ہیں جو قاری کو غیر مانوس نہیں معلوم ہوتا اور ایسا لگتا ہے کہ کہانی کا یہ انجام بڑا مناسب اور برمحل ہے۔بیدیؔ افسانے کے تمام عناصر پر ابتدا ء تا انتہا تک قادر رہ کر اپنی منفرد کہانیاں تخلیق کرتے ہیں۔ان کے افسانوں میں پائی جانے والی معروضیت ان کے جذبے کو معتدل کرتی ہے۔راجندر سنگھ بیدی ؔ اپنی کہانیوں میں انسانی کرب و مسائل کو تو پیش کرتے ہیں لیکن ان کے اسلوب کی لطافت کے سبب یہ پریشانیاں اشتہار نہیں بنتی۔بالآخر یہ کہ راجندر سنگھ نے فکر کی گہرائی اور انفرادی اسلوب کے ذریعہ اردو افسانے کو نئی معنویت عطا کی ہے اور افسانہ لاجونتی اس کی عمدہ مثال ہے۔
گلشن جہاں۔ایم۔اے(اردو۔نیٹ)،بی۔ایڈ
gulshanj97@gmail.com
SAMBHAL.244302

Tuesday, June 20, 2017

افسانہ ۔ اذان

ایم مبین

   اذان   


شاید وہ رات کا آخری پہر ہو گا۔ معمول کے مطابق آنکھ کھل گئی تھی۔ اُس نے اندازہ لگایا، شاید ۴  بج رہے ہوں  گے۔ آج آنکھ معمول سے کچھ پہلے ہی کھل گئی ہے۔
اب آنکھ بند کر کے لیٹے رہنا بھی لاحاصل تھا۔ نیند تو آنے سے رہی۔ صبح تک کروٹیں  بدلنے سے بہتر ہے کہ باہر آنگن میں  بیٹھ کر صبح کی ٹھنڈی ہواؤں  کے جھونکوں  سے لُطف اندوز ہوا جائے۔ اُس نے بستر چھوڑا اور گھر کے باہر آیا۔

چاروں  طرف تاریکی چھائی ہوئی تھی۔ گھر کے باہر بندھے جانوروں  نے تاریکی میں  بھی اُس کی آہٹ سُن لی یا شاید اُنھوں  نے اُس کی مانوس بُو سونگھ لی ہو۔ وہ اپنی اپنی زُبانوں  میں  اُسے آوازیں  دے کر اپنی موجودگی کا احساس دِلانے لگے۔
" اچھا بابا ! مجھے پتہ ہے تم لوگ جاگ رہے ہو، آتا ہوں۔ " کہتا وہ مویشی خانے کے پاس آیا۔ اُسے دیکھ کر گائے نے منہ سے آواز نکالی۔
" اب چپ بھی ہو جا۔" اُس نے گائے کی پیٹھ تھپتھپائی تو وہ زُبان نکال کر اُس کا ہاتھ چاٹنے لگی۔ اُس کے بعد بھینس، بیل، بکریاں  اور بھیڑیں  شور مچانے لگے۔
وہ اُن کو آوازیں  دیتا چپ رہنے کے لئے کہنے لگا۔
تھوڑی دیر بعد سب چپ ہو گئے تو وہ آنگن میں  رکھی کھاٹ پر آ کر بیٹھ گیا اور تمباکو نکال کر چلم بھرنے لگا۔
چلم کا ایک کش لے کر اُس نے دُور گاؤں  کی طرف ایک نظر ڈالی۔ اندھیرے میں  ڈوبا گاؤں  اُسے کسی آسیبی حویلی کی طرح دِکھائی دے رہا تھا۔وقت دھیرے دھیرے سرک رہا تھا اور اُفق پر ہلکی ہلکی سُرخی نمودار ہو رہی تھی۔لیکن ماحول پر سکوت کا وہی عالم تھا۔ اُس کے کان اُس سکوت کو توڑنے والی ایک آواز کے منتظر تھے۔
اُس سکوت کو سب سے پہلے توڑنے والی اللہ بخش کی اذان کی آواز۔
لیکن اُفق پر پَو پھٹ گئی۔ ہنومان، وِشنو، جلرام، شنکر کے مندروں  کی گھنٹیاں  بجنے لگیں۔ ساتھ بجنے والی تمام منادر کی گھنٹیوں  سے ایک بے ہنگم شور نے سنّاٹے کے سینے کو درہم برہم کر دیا۔
اور پھر وہ بھی خاموش ہو گئے۔
لیکن اللہ بخش کی آواز نہ تو فضا میں  اُبھری اور نہ اُسے اللہ بخش کی اذان کی آواز سنائی دی۔
ایک لمبی سانس لے کر اُس نے اپنے سر کو جھٹک دیا۔
وہ بھی کتنا بے وقوف ہے۔
وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ اللہ بخش اپنے بچے ہوئے خاندان کے ساتھ اُس گاؤں  کو چھوڑ کر جا چکا ہے۔ جس مسجد کے آنگن سے وہ اذان دیتا تھا وہ مسجد اب کھنڈر میں  تبدیل ہو چکی ہے۔ اُس کے اندر اب ہنومان کی مورتی رکھی ہوئی ہے۔پھر بھلا اُسے اللہ بخش کی اذان کی آواز کس طرح سُنائی دے سکتی ہے۔
اب تو اللہ بخش کو گاؤں  چھوڑے مہینوں  ہو گئے ہیں۔ پھر بھی اُس کے کان اللہ بخش کی اذان کے منتظر کیوں  رہتے ہیں؟
شاید اِس لئے کہ وہ گذشتہ چالیس برسوں  سے اللہ بخش کی اذان کی آواز سُن رہا تھا۔
دِن کے شور میں  تو اُسے اللہ بخش کی اذان کی آواز سُنائی نہیں  دیتی تھی۔لیکن فجر میں  اور عشاء میں  اُس کی اذان کی آواز ہر کوئی صاف صاف سُن سکتا تھا۔
اُسے اذان کی آواز سُن کر ایک قلبی سکون ملتا تھا۔ یہ سوچ کر کہ میری طرح میرا دوست بھی جاگ گیا ہے اور وہ اپنے خدا کی عبادت میں  لگا ہے اور عبادت میں  شریک ہونے کے لئے دُوسرے بندوں  کو پکار رہا ہے۔
چالیس سالوں  میں  ایسے بہت کم مواقع آئے تھے جب اُس نے اللہ بخش کی اذان نہ سُنی ہو۔اِن موقعوں  میں  وہ دِن تھے جب وہ کسی کام سے گاؤں  سے باہر گیا ہو یا پھر اللہ بخش کسی کام سے باہر گیا ہو گا۔
چالیس سالوں  سے وہ اذان کی آواز سُن رہا تھا۔ لیکن گذشتہ ۱۶۰ سالوں  سے وہ اللہ بخش کو جانتا تھا۔ایسا کوئی بھی دِن نہیں  گزرا تھا جب اُس کا اور اللہ بخش کا سامنا نہیں  ہوا ہو یا بات چیت نہ ہوئی ہو یا دونوں  نے مل کر ساتھ تمباکو نہ پی ہو۔
لیکن وہی اللہ بخش ایک دِن اُسے، اِس گاؤں  کو چھوڑ کر چلا گیا، جس میں  وہ پیدا ہوا تھا، پلا بڑھا تھا، جہاں  اُس کا گھر تھا، کھیت تھے، مسجد تھی۔ جسے اُس نے اپنے ہاتھوں  سے بنایا تھا۔
اور وہ جاتے ہوئے اُسے روک نہیں  سکا تھا۔
اُس میں  اللہ بخش کو روکنے کی ہمّت بھی نہیں  تھی۔ وہ کس منہ سے اُس سے کہتا۔
" اللہ بخش اِس گاؤں  کو چھوڑ کر مت جاؤ ! یہ گاؤں  تمہارا ہے، تم یہیں  پیدا ہوئے ہو۔ ہم ساتھ کھیلے ہیں ، بڑے ہوئے ہیں ، یہاں  تمہاری اولادیں  پیدا ہوئی ہیں ، اِس گاؤں  کے قبرستان میں  تمہارے ماں  باپ اور کئی رشتہ دار دفن ہیں۔ اِس گاؤں  کو چھوڑ کر مت جاؤ۔ "
اُسے پتا تھا کہ اگر وہ ایسا کہتا تو اللہ بخش کا ایک ہی جواب ہوتا۔
" رام بھائی ... ! اِس گاؤں  نے میرا جوان بیٹا چھین لیا، میرا دُوسرا بیٹا اپاہج ہو گیا، میری بہو کی طرف ناپاک ہاتھ بڑھے، لیکن میری بہو نے اُن ناپاک ہاتھوں  کو اپنے جسم کا لمس دینے سے قبل اپنی جان دے دی،اِس گاؤں  میں  میری بیٹیوں  کی عصمت تار، تار ہونے ہی والی تھی، خدا نے کسی طرح اُنھیں  بچا لیا، میرے اس کھیت کو جلا کر راکھ کر دیا گیا جو چار مہینے تک اپنے خون سے سینچ، سینچ کر میں  نے لہلہائے۔ اِس گاؤں  میں  میرے پیار کے شِوالے، میرے گھر کو توڑ دیا تھا، مسجد کو کھنڈر بنا کر اُس میں  ہنومان کی مورتیاں  رکھ دی گئیں۔ اب آگے اِس بات کی کیا گیارنٹی ہے کہ میرے کسی بیٹے کی جان لینے کی کوشش نہیں  کی جائے گی، میری بیٹیوں  کی طرف ہوسناک نظریں  نہیں  اُٹھیں  گی۔ میری عبادت گاہ مسمار نہیں  کی جائے گی ؟ "
اللہ بخش کی اِس بات کا کسی کے پاس جواب نہیں  تھا۔
اُس کی آنکھوں  کے سامنے سب کچھ ہوا تھا۔ مسجد توڑی گئی تھی اور اُس میں ہنومان کی مورتیاں  رکھی گئی تھیں ، اُس کے کھیت اور گھر جلائے گئے تھے، اُس کے بیٹوں  کو ترشولوں  سے وار کر کے مارا گیا تھا۔
اُس کی بہو، بیٹیوں  کی طرف ہوسناک ہاتھ بڑھے تھے۔
وہ چپ چاپ تماشہ دیکھتا رہا تھا۔
کسی کو روک نہیں  سکا تھا۔ گاؤں  کے کسی بھی فرد نے ان بلوائیوں کو روکنے کی کوشش نہیں  کی تھی۔
جن لوگوں  نے یہ سب کچھ کیا وہ سب اِس کے اپنے تھے، اِسی گاؤں  کے لوگ، جو اِس گاؤں  میں  پل کر جوان ہوئے تھے، وہ اللہ بخش کی گود میں  کھیلے تھے، اُس کے کھیتوں  سے آم چرا کر اُنھوں  نے کھائے تھے۔
جسے وہ اللہ بخش چاچا کہتے تھے، اُن ہی لوگوں  نے اُس کے خاندان کے ساتھ یہ سب کیا تھا۔
وہ اور اُس کے جیسے سیکڑوں  لوگ تماشہ دیکھتے رہے تھے اور اللہ بخش کو پُرسہ دینے، اپنی دوستی، تعلقات کا یقین دِلانے کے لئے اُس وقت پہنچے تھے جب اُس کا سب کچھ لُٹ گیا تھا۔
جس وقت وحشت کا یہ ننگا ناچ ہوا تھا، اُس وقت اللہ بخش گاؤں  میں  نہیں  تھا۔
وہ کسی کام سے شہر گیا تھا۔ جب وہ شہر سے لوٹا تو سب کچھ برباد ہو گیا تھا۔
اگر اللہ بخش گاؤں  میں ہوتا اور اُس کے سامنے یہ سب کچھ ہوتا تو وہ شاید زندہ نہیں  رہتا۔
یا تو وہ اُس کے بڑے بیٹے کی طرح مار دیا جاتا یا پھر یہ سب اپنی آنکھوں  سے دیکھنے کے بعد خود مر جاتا۔
اِس کے بعد وہ گاؤں  میں  نہیں  رہ سکا، اُسے اپنے زخمی خاندان کو لے کر شہر سے جانا پڑا۔
شہر سے آنے کے بعد تو اُس کا گاؤں  میں  رہنا اور بھی مشکل ہو گیا۔ اُسے دھمکیاں  ملنے لگیں۔ گاؤں  چھوڑ کر چلے جاؤ ورنہ گذشتہ بار جو نہیں  ہوا اِس بار وہ ہو گا۔ اِس بار کوئی نہیں  بچ پائے گا۔
اِس گاؤں  میں  پیدا ہوئے، پلے، بڑھے اللہ بخش کے ہزاروں  دوست، شناسا تھے، ہر کوئی اُسے جانتا تھا، ہر کسی کے اُس کے ساتھ تعلقات تھے۔
سب اللہ بخش کو تسلّی دینے گئے تھے۔
" جو ہوا بہت برا ہوا۔ "
" اگر وہ برا ہو رہا تھا تو آپ لوگوں  نے اُسے روکا کیوں  نہیں  ؟ "
اللہ بخش جب اُن سے سوال کرتا تو سب لاجواب ہو جاتے۔
اِس لئے جب اُس نے اپنے خاندان کے ساتھ گاؤں  چھوڑنے کا فیصلہ کیا تو چند ہی لوگوں  نے اُسے روکنے کی کوشش کی۔
" میں  مانتا ہوں ، لیکن جو دھمکیاں  مجھے روزانہ مل رہی ہیں ، اُن کا کیا ہو گا ؟ اِس بات کی کیا ضمانت ہے کہ جو کچھ میرے خاندان کے ساتھ ہوا دوبارہ نہیں  ہو گا،ہم اِس گاؤں  میں  پہلے ہی کی طرح محفوظ رہیں  گے ؟ "
لیکن اِس بات کی کوئی بھی ضمانت نہیں  دے سکا۔
" وہ بچے ہیں  اور بہک گئے ہیں ، اِس طرح بہک گئے ہیں  یا بہکا دئے گئے ہیں  کہ اُن کو راہ پر لانا ناممکن ہے اور تم تو جانتے ہو ؟ آج کل کے نوجوان کسی کی نہیں  سنتے ہیں۔ " اللہ بخش کو جواب ملتا۔
" تو اِس کا مطلب یہی ہے کہ مجھے اپنے خاندان والوں  کے ساتھ یہ گاؤں  چھوڑنا پڑے گا۔ تمہارے بچے نہیں  چاہتے ہیں  کہ ہم لوگ اِس گاؤں  میں  رہیں ، جو میرا اپنا گاؤں  ہے۔ تم میں  اپنے بچوں  کو روکنے کی طاقت نہیں  ہے، اِس کا مطلب بھی صاف ہے کہ تم بھی اپنے بچوں  کے جرم میں  برابر کے شریک ہو۔ تو ٹھیک ہے، اب میں  کوئی خطرہ نہیں  لینا چاہتا۔ مجھے اور میرے خاندان کو کہیں  نہ کہیں  تو پناہ مل ہی جائے گی۔ اللہ کی زمین بہت بڑی ہے۔ "
جس دِن اللہ بخش کا خاندان گاؤں  چھوڑ کر گیا، اُسے اور اُس کے جیسے چند لوگوں  کو بہت دُکھ ہوا، لیکن گاؤں  میں  جشن منایا گیا۔ اللہ بخش کے گھر کی اینٹوں  کو تو ڑ، توڑ کر، مسجد کو توڑ کر اپنی کامیابی، فتح پر رقص کیا گیا۔ اللہ بخش کے کھیت پر قبضہ کر کے اُس کے حصّے بخرے کئے گئے۔
وہ چلا گیا، لیکن اُس کے جانے کے ساتھ اُس سے وابستہ سالوں  کی یادیں  نہیں  جاسکیں۔
وہ اللہ بخش جس کے ساتھ بچپن سے وہ کھیلتا، کودتا آیا تھا۔
جو اُس کے ساتھ ساتھ گاؤں  کی اسکول میں  پڑھا تھا۔
جس کے ساتھ وہ گاؤں ، کھیت سے وابستہ ہر مسئلے پر بحث کرتا تھا اور اللہ بخش کے نیک مشورے قبول کرتا تھا۔
عید، بقر عید کے دِن وہ جس اللہ بخش کے گھر شیر خرمہ کھانے جاتا تھا، محرم کے ایّام میں  شربت اور کھچڑا کھانے جاتا تھا، دیوالی، نو راتری پر جس کو وہ اپنے گھر بلاتا تھا۔
نو راتری کے تہوار پر جب اللہ بخش کاٹھیاواڑی لباس پہن کر ڈانڈیا کھیلتا تو کوئی اُسے پہچان نہیں  پاتا تھا کہ اللہ بخش ہے، جو مسلمان ہے، گاؤں  کی اکلوتی مسجد کا مؤذّن ہے، پیش اِمام ہے، گاؤں  کے مسلمان بچوں  کو عربی کی تعلیم دیتا ہے اور اُنھیں  دین کی باتیں  بتاتا، سکھاتا ہے۔
سویرے جاگنے کے بعد اللہ بخش کی اذان کی آواز اُسے بہت بھلی لگتی تھی۔ رات میں  جب تک اذان کی آواز اُس کے کانوں  میں  نہیں  پڑتی تھی تب تک اُسے میٹھی گہری نیند نہیں  آتی تھی۔
ایک دِن اُس نے اللہ بخش سے پوچھا تھا۔
" بھائی اللہ بخش ! تم اِس اذان میں  کیا پکارتے ہو ؟ "
" اِس اذان میں  اللہ کی تعریف اور اللہ کی عبادت کے لئے آنے کا بلاوا ہوتا ہے۔ "
اُس کا لڑکا شہر سے ٹیپ ریکارڈر لے آیا تھا۔
ایک دِن جب اللہ بخش کسی کام سے اُس کے گھر آیا تو وہ اُس سے بولا۔
" اللہ بخش ! تم اذان پکارو میں  تمہاری اذان کو ٹیپ کرنا چاہتا ہوں۔ "
" نہیں  رام بھائی ! اذان کسی بھی وقت نہیں  دی جاتی، اِس کے اوقات مقرر ہیں۔ اُن ہی اوقات میں  اذان دی جاتی ہے۔ "
لیکن جب وہ اللہ بخش سے بہت زیادہ اصرار کرنے لگا کہ وہ اُس کی اذان کو ٹیپ کرنا ہی چاہتا ہے تو اللہ بخش نے اذان دی اور اُس نے اُسے ٹیپ کر لی۔
" میں  نے آج تمہارے گھر میں  اذان دی ہے۔ دیکھنا اِس اذان کی قوت سے تمہارے گھر میں  جو بلائیں ، آسیب، شیطان، بھوت، پریت آتما ہوں  گی ؟ بھاگ جائیں  گی۔ "
اور کچھ دِنوں  بعد سچ مچ اُسے محسوس ہوا کہ اُس کے گھر میں  واقعی بہت نمایاں  تبدیلی ہوئی ہے۔ جن بلاؤں ، آسیب کا گھیرا اُس کے گھر میں  تھا، اللہ بخش کی اذان سے وہ دُور ہو گیا۔
گذشتہ پچاس سالوں  میں  کئی بار پورا ملک فسادات میں  جھلسا، لیکن اُن کی گرم ہوا کبھی بھی اُن کے چھوٹے سے گاؤں  کو نہیں  چھو سکی۔ لیکن وہ گذشتہ چار پانچ سالوں  سے بڑی شدّت سے محسوس کر رہا تھا کہ اُن کی آل اولاد کے خیالات میں  بڑی تیزی سے تبدیلی آ رہی ہے۔ اُن کی نسل کے لوگ کبھی بھی اللہ بخش اور اُس کے مذہب کے لوگوں  کے بارے میں  باتیں  نہیں  کرتے تھے۔
لیکن یہ نئی نسل اب صرف اللہ بخش اور اُس کے مذہبی بھائیوں  کے بارے میں  ہی باتیں  کرتے ہیں  اور اُن کی باتوں  میں  نفرت کا زہر بھرا ہوتا ہے۔ گاؤں  کا ہر چھوٹا بڑا اللہ بخش کی عزت کرتا تھا لیکن یہ چھوٹے موقع ملنے پر بات بات پر اللہ بخش کی توہین کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، اُس سے اور اُس کے خاندان سے اُلجھتے ہیں۔
کبھی کبھی اللہ بخش بڑے دُکھ سے کہتا تھا۔
" رام بھائی ! کچھ سمجھ میں  نہیں  آ رہا ہے۔ گذشتہ پچاس سالوں  میں  جو میرے یا میرے خاندان کے ساتھ اِس گاؤں  میں  نہیں  ہوا، وہ ہو رہا ہے۔ "
" چھوٹی چھوٹی باتوں  پر دِل کیوں  چھوٹا کرتے ہو اللہ بخش ! ہم ہیں  نا، یہ سب تو چلتا رہتا ہے۔ " وہ اُسے سمجھاتا۔
اور اُس دِن وہ سب کچھ ہو گیا۔
اچانک ہوا یا پہلے سے طے شدہ تھا۔ اِس بارے میں  وہ کچھ بھی نہیں  جانتا تھا۔
اور اللہ بخش کو گاؤں  چھوڑ کر جانا پڑا۔
اب گاؤں  میں  صرف اللہ بخش کی یادیں  اور اُس کی کھنڈر سی نشانیاں  ہیں۔ اُس کا ٹوٹا ہوا گھر، جلی ہوئی مسجد جس میں  ہنومان کی مورتیاں  رکھی ہیں۔ کھیتی جس پر پتہ نہیں  کتنے لوگوں  کا قبضہ ہے۔
جنھوں  نے یہ سب کیا تھا کیا شاید وہ بھول بھی گئے ہوں  گے ؟
لیکن وہ اُسے نہیں  بھول سکا۔
اُسے بار بار یہ محسوس ہوتا ہے اللہ بخش جیسے اُس کی رگ، رگ میں  بسا ہوا ہے۔ اُسے اللہ بخش کی ایک ایک بات یاد آتی ہے۔ اللہ بخش کے ساتھ گزارا ایک ایک لمحہ یاد آتا ہے۔ اُسے ہر جگہ اللہ بخش کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ پتا نہیں  اُن لوگوں  کو اللہ بخش کی کمی محسوس ہوتی بھی ہے یا نہیں ، جنھوں  نے اُسے گاؤں  چھوڑنے پر مجبور کیا تھا۔ اُسے گاؤں  چھوڑنے پر مجبور کر کے پتا نہیں  اُن کے کس جذبۂ اَنا کو تسکین ملی ؟
وہ روزانہ جاگتا ہے تو اُس کے کان اللہ بخش کی اذان سننے کے لئے بیتاب رہتے ہیں۔ اُسے پتا تھا کہ اللہ بخش کی اذان کی آواز سنائی نہیں  دے گی۔کیونکہ اللہ بخش یا کوئی اور میاں  بخش اِس گاؤں  میں  نہیں  رہتا ہے۔ پھر بھی اُس کے کان اذان کی آواز سننا چاہتے تھے۔
اُسے اللہ بخش کی اذان سن کر ایک ذہنی سکون ملتا تھا۔
لیکن اب اُسے وہ آواز سنائی نہیں  دیتی ہے تو دِن بھر ایک بے چینی کا شکار رہتا ہے۔
جب اُس کی بے چینی حد سے زیادہ بڑھ جاتی ہے تو وہ ٹیپ ریکارڈر کے پاس جاتا اور اُس میں  وہ کیسیٹ لگاتا جس میں  اُس نے ایک دِن اللہ بخش کی اذان ٹیپ کی تھی۔
اور جب وہ پورے والیوم میں  اللہ بخش کی اذان سنتا تو اُس کے دِل کو بڑا سکون ملتا تھا۔
حیّٰ علی الفلاح، حیّٰ علی الفلاح .......


Sunday, June 18, 2017

غزل

غزل

   ہاجرہ نور زریاب ,آکولہ مہاراشٹر 



یارب دیا ہے حسن تو یہ بھی کمال دے
میں ہنس پڑوں تو پھول بھی خوشبو اچھال دے


اندازہ میری پیاس کا جانے گا کوئی کیا
چاہوں تو اک پہاڑ بھی چشمہ نکال دے


ہستی تو نیستی میں بدل جائے گی مگر
ایمان مجھ کو میرے خدا لازوال دے


ماں کی دعائیں ساتھ میں رکھتی ہوں اس لیے 
جو بھی بلائیں آئیں اسے سر سے ٹال دے


شاید وہ میرے فن کو سمجھنے لگا ابھی
ورنہ وہ ایسا کب تھا کہ آنسو نکال دے


کیسا عجیب دوست ہے جب بھی ملوں اسے 
میرے ہی سامنے مجھے میری مثال دے


میں مانگتی ہوں تجھ سے دعا اے مرے خدا
جب بھی قلم اٹھاؤں انوکھا خیال دے


زریاب تو بشر ہے مگر بس کرم کی بات
رگ رگ میں تو ہی تھوڑا سا جاہ و جلال دے


Monday, June 12, 2017

افسانہ --- لُنگی

شموئل احمد،پٹنہ 

    لُنگی   


شعبہ میں نئی لڑکی کا داخلہ ہوتا تو ابو پٹّی لنگی پہنتا۔اس کے پاس رنگ برنگ کی لنگیاں تھیں۔لال پیلی نیلی ہری .....ایک نہیں تھی تو سفید۔
سفید لنگی سے ابو پٹّی کو چڑ سی تھی ۔پہنو بھی نہیں کہ میلی نظر آتی ہے۔ بھلا یہ بھی کوئی رنگ ہے کہ داغوں کو چھپا نہیں پاتا ہے۔ اس اعتبار سے اس کو سیاہ لنگی پسند تھی کہ گرد خور تھی لیکن ایک جیوتشی نے کہا تھا کہ سیاہ شنی کا رنگ ہے جو نا امیدی کا ستارہ ہے اور ابو پٹّی نے بھی محسوس کیا تھا کہ سیاہ رنگ کے استعمال سے اس کو اکثر خسارہ ہوا ہے ۔ اس دن اس نے سیاہ لنگی بیگ میں رکھی تھی جب زر بہار اُس کے ہاتھوں سے صابن کی طرح پھسل گئی تھی اور پروفیسر راشد اعجاز کی جھولی میں جا گری تھی ۔
زر بہار ایک مقامی شاعر کی دختر نیک اختر تھی۔اس نے ایم اے کیا تھا اور اب ایم فل میں داخلہ لینا چاہ رہی تھی ۔ابو پٹّی ان دنوں شعبہ کا چیئر مین تھا۔وہ داخلے کا فارم لیے چیمبر میں داخل ہوئی تو اس نے عجیب سی بے چینی محسوس کی۔ بے چینی تو وہ ہر اُس لڑکی کو دیکھ کر محسوس کرتا تھا جو ایم فل کے لیے داخلہ لیتی تھی لیکن زر بہار کی ادائیں کچھ الگ سی تھیں۔ گفتگو کے دوران زلفوں کی ایک لٹ اُس کے رخسار پر لہرا جاتی جسے ادا ئے خاص سے پیچھے کی طرف سرکا تی رہتی۔ و ہ گداز جسموں والی لڑکی تھی۔ رخسار پھولے پھولے سے تھے۔ خوبصورت نہیں تھی لیکن کہیں کچھ تھاجو ابو پٹّی کو لنگی پہننے پر اکسا رہا تھا۔
چمبر میں داخل ہوتے ہی اس نے ادب سے سلام کیا اور پھر دو قدم چل کر اس کے ایک دم قریب کھڑی ہو گئی۔ عموماً طلبا چیمبر میں داخل ہوتے ہیں تو ایک فاصلے پر کھڑے ہو کر گفتگو کرتے ہیں لیکن زر بہار کا انداز کچھ ایسا تھا جیسے برسوں کی شناسا ہو ۔ اس نے پہلے اپنے والد کا نام بتایا جو شاعر ہوا کرتے تھے۔ ابو پٹّی نے متأثر ہونے کی اداکاری کی ۔ 
’’ ماشااللہ.....کیا کہنے ۔‘‘
زر بہار خوش ہو گئی اور والد محترم کی شان میں رطب اللسان ہوئی کہ مشاعرے میں کہاں کہاں جاتے تھے اور کیسے کیسے اعزازات سے نوازے گئے۔ پھر چہرے کے قریب اک ذرا جھک کر مسکراتی ہوئی بولی۔
’’ سر....میں پی ایچ ڈی کرنا چاہتی ہوں ۔‘‘
ابو پٹّی مسکرایا۔ایک ہی بار میں پی ایچ ڈی...؟ پہلے ایم فل کرتے ہیں۔‘‘
اپنی غلطی کا احساس ہوا تو دانتوں تلے زبان دبائی .....!
ابو پٹّی کی مسکراہٹ گہری ہو گئی ۔
’’ کس موضوع پر تحقیق کرنا چاہتی ہو ؟ ‘‘
’’ کچھ بھی....۔ ‘‘
ابو پٹّی کے لہجے میں جھنجھلاہٹ تھی لیکن اس کی مسکراہٹ برقرار تھی ۔
’’ کس صنف میں ؟ شاعری، افسانہ ،ناول، تنقید....۔‘‘ 
’’ شاعر کی بیٹی ہوں تو شاعری پر ہی کروں گی ۔ ‘‘
’’نئی شاعری پر کرو ۔ اقبال غالب میر پر تو بہت تحقیق ہوئی۔‘‘
’’ جی سر ۔‘‘
کسی کو پڑھا ہے....شہر یار، ندا فاضلی ، عالم خورشید....خورشید اکبر......؟‘‘
’’ آپ پڑھا دیں گے سر....؟‘‘
’’میں....؟ میں تو بہت کچھ پڑھا دوں گا .....ہے...ہے....ہے....ہے....۔‘‘ 
ابو پٹّی ہنسنے لگا۔زر بہار بھی ہنسنے لگی۔ بالوں کی لٹ رخسار پر جھول گئی۔ گالوں میں گڈھے سے پڑ گئے ۔
چمبر میں ثاقب داخل ہوا اور ابو پٹّی کے ماتھے پر بل پڑ گئے۔
’’آپ بغیر اجازت اندر کیسے چلے آئے ؟‘‘
’’ سر....میری تھیسس....!‘‘
’’ جانتا ہوں آپ نے تھیسس مکمّل کر لی ہے لیکن بے ادبی سے پیش آئیں گے تو تھیسس دھری رہ جائے گی ۔‘‘
’’ غلطی ہوئی سر...معاف کیجیے گا ۔ ‘‘ ثاقب سر جھکائے باہر نکل گیا۔
اس کے جانے کے بعد بھی ابو پٹّی کا غصّہ کم نہیں ہوا۔
’’ یہی وجہ ہے کہ میں چمبر اندر سے بند کر دیتا ہوں۔ لڑکے بہت ڈسٹرب کرتے ہیں۔ ‘‘
’’ صحیح کہا سر۔ بغیر اجازت تو اندر آنا ہی نہیں چاہیے۔‘‘
پردے کے پیچھے سے کوئی دوسرا لڑکا جھانک رہا تھا۔
’’ دیکھو پھر کوئی جھانکنے لگا ۔‘‘ ابو پٹّی کی جھنجھلاہٹ بڑھ گئی ۔
’’ دروازہ بند کر دوں سر....؟‘‘
’’رہنے دو۔کچھ طلبا ملنا چاہ رہے ہیں ۔ تم کل دس بجے آؤ۔ فارم بھی بھر دوں گا۔ سمجھا  بھی دوں گا کیسے کیا کرنا ہے اور موضوع بھی طے کر دونگا . 
’’ شکریہ سر! میں کل آتی ہوں۔ ‘‘
زر بہار چلی گئی ابو پٹّی نے طلبا کو اندر طلب کیا۔
چار لڑکے...چھ لڑکیاں....!
ابو پٹّی نے لڑکوں پر طائرانہ سی نظر ڈالی۔ لڑکیوں کو گھور گھور کر دیکھا۔وہ یقیناًفیصلہ کر رہا تھا کہ کس کو اپنی نگرانی میں رکھے اور کس کو دوسرے اساتذہ کو سونپ دے۔
’’آپ فارم بھرنے آئے ہیں ؟ ‘‘
’’ جی سر ...!‘‘
’’ تو میرے پاس آنے کی کیا ضرورت ہے ؟ آپ فارم جمع کر دیں۔ آپ کا ٹیسٹ ہوگا۔ جو زیادہ نمبر لائیں گے وہ سیدھا پی ایچ ڈی بھی کر سکتے ہیں ورنہ ایم فل میں داخلہ ہوگا۔ چھے مہینے کلاسیس کرنے ہوں گے۔اس کے بعد پھر امتحان ہو گا۔‘‘
’’ سر ہمیں موضوع کے انتخاب کی آزادی تو ہے ۔‘‘
کسی لڑکے نے پوچھا تو ابو پٹّی نے اُسے گھور کر دیکھا۔
’’ بالکل ہے لیکن اس موضوع کا علم بھی آپ کو ہونا چاہیے۔‘‘
لڑکا سہم گیا۔ اس نے سعادت مندی سے سر ہلایا۔ 
طلبا چلے گئے تو ابو پٹّی کلاس لینے چلا گیا۔
زر بہار باہر نکلی تو بہت خوش تھی۔
’’ نئی مرغی ۔‘‘ لڑکوں نے اُسے سر سے پاؤں تک گھورا۔
’’ آپ ایم فل کے لیے آئی ہیں؟‘‘
’’ میں سیدھا پی ایچ ڈی کروں گی۔‘‘ نئی مرغی مسکرائی۔
ثاقب یہ سوچ کر دل ہی دل میں حقارت سے مسکرایا کہ ان کی پی ایچ ڈی تو لنگی میں ہوگی ۔
’’آپ کا موضوع کیا ہے ؟ ‘‘
’’ جدید شاعری۔‘‘
’’ جدید شاعری میں کیا ؟ ‘‘
’’ یہ سر طے کریں گے ۔‘‘
’’ کمال ہے۔ آپ پی ایچ ڈی کر رہی ہیں اور آپ کو موضوع کا پتا نہیں ہے ۔‘‘ لڑکے نے مسکراتے ہوئے کہا۔
ثاقب کے جی میں آیا کہہ دے ہوشیار رہیے گا....سر کمرہ اندر سے بند کر لیتے ہیں۔لیکن خاموش رہا۔ وہ کوئی خطرہ مول  ’’ لینا نہیں چاہتا تھا ۔ ابو پٹّی کو اگر بھنک مل جاتی تو کیریئر تباہ ہونے میں وقت نہیں لگتا۔ پھر بھی اس نے دبی زبان میں کہا۔
’’ سر آپ لوگوں پر مہربان رہتے ہیں او ر ہمیں تو کوئی پوچھتا بھی نہیں۔‘‘
لڑکوں کو واقعی کوئی پوچھتا نہیں تھا۔ لیکن لڑکیوں کو پریشانی نہیں تھی۔ان پر خاص توجہ دی جاتی۔اساتذہ آپس میں الجھ جا تے کہ کون سی طالبہ کس کی نگرانی میں تحقیق کرے گی ۔ان کے درمیان لڑکیاں مال مفت کی طرح بٹ جاتی تھیں لیکن کوئی طالبہ پروفیسر راشد اعجاز کو پسند آجاتی تو چیئر مین سے بھڑجاتااور اس کو اپنے حصّے میں لے کر ہی دم لیتا۔
  اس کی لنگی کا رنگ زیادہ پختہ تھا۔اس نے الگ سے ایک کمرے کا فلیٹ لے رکھا تھا اور دروازہ پر تختی لگا رکھی تھی '' دارالمطالعہ ''۔  وارڈروب میں لنگیاں سجی رہتیں۔ کچن بھی سجا رہتا .... طالبات کو دارالمطالعہ میں بلاتا ۔چائے کا دور چلتا او رپروفیسر لنگی میں قیلولہ فرماتا ۔
جو لڑکی فلیٹ کا رخ نہیں کرتی اُسے پی ایچ ڈی میں کئی سال لگ جاتے ۔لیکن وہ جلد بازی سے کام نہیں لیتا تھا۔پہلے طالبہ کو یقین دلاتا کہ اُس کے بغیر وہ پی ایچ ڈی نہیں کر سکتی۔وہ پہلا باب خود لکھ دیتا۔ بیچ بیچ میں ڈکٹیشن دیتا۔ڈکٹیشن کے دوران لڑکی کے پیچھے کھڑا ہو جاتا اور جھک کر دیکھتا کہ اِملا کی غلطیاں کہاں کہاں ہیں ؟پھر اُس کے شانے کے اوپر سے ہاتھ بڑھا کر غلط الفاظ پر شہادت کی انگلی رکھتا اور کہتااسے صحیح کرو۔اس طرح ہاتھ بڑھانے میں اُس کے بازو لڑکی کے رخسار کو چھونے لگتے۔لڑکی ہٹ کر بیٹھنے کی کوشش کرتی تو اس کے شانوں پر ہاتھ رکھ کر کہتا  
کے بغیر پی ایچ ڈی نہیں کر سکتبی.. ۔’ بچّی.... تم میری مدد
تب کچھ دیر کے لیے اپنی کرسی پر بیٹھ جاتا اورکہتا 
۔ ’’ آگے لکھو....‘‘ 
لیکن چند سطور لکھانے کے بعد پھر پیچھے کھڑا ہو جاتا اور رخسار سہلاتے ہوئے کہتا۔
’’پیاری بچّی....اس طرح غلطیاں کروگی تو تھیسس کا ستیا ناس ہو جائے گا۔ ‘‘
جب فضا سازگار ہو جاتی تو کمرہ اندر سے بند کرتا اور لنگی....
راشد اعجاز اُسے پہلا ایپی سوڈ ‘‘ 
’’ کہتا تھا۔ پہلا ایپی سوڈ ہمیشہ چمبر میں ہوتا۔ باقی کے دارالمطالعہ میں .....۔
پروفیسر راشد اعجاز سے سبھی خائف رہتے ۔ اس کی پہنچ وی سی تک تھی۔منسٹرسے بھی اس کے روابط تھے۔بلکہ افواہ تھی کہ بہت جلد کسی اردو یونورسٹی کا وائس چانسلر ہونے جا رہا ہے ۔
لڑکوں کے لیے کوئی جھک جھک نہیں تھی۔وہ آزاد تھے۔ جسے چاہتے اپنا سپروائزر بنا سکتے تھے ۔پھر بھی پروفیسر منظر حسنین کے پلّے کوئی پڑنا نہیں چاہتا تھا۔ چہرے پر سفید داغ تھے اور مقطع داڑھی تھی۔تکونی ٹوپی پہنتے تھے جو پیشانی کو ڈھک لیتی لیکن داغ چھپ نہیں پاتے ۔کسی نے کوئی سوال پوچھ لیا تو حسنین اُسے ٹارگیٹ کر لیتے اور اس کو دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ جاتا۔لیکن پنچ گانہ نماز پڑھتے اور اخلاقیات کا درس دیتے ۔ ایک دو لنگی ان کے پاس بھی تھی۔ جہاں لنگی میسرنہیں ہوتی تو سوٹ کا اشارہ کرتے ۔
’’ ریمنڈ کا سوٹ بہت اچھا ہوتا ہے۔‘‘
’’ سوچتا ہوں ایک سوٹ سلوا لوں۔ ‘‘
’’ لیکن سلائی بہت مہنگی ہے ۔‘‘
’’ آپ لوگوں کو کمی کیا ہے۔؟ جے آر ایف سے وظیفہ ملتا ہے۔‘‘
عقلمند کے لیے اشارہ کافی ہوتا ہے اور پریشانی کون مول لے؟ ہر سیزن میں دو چار سوٹ وہ سلوا ہی لیتے۔
اور پروفیسر ہاشمی.....؟
آنحضرت نے حرم سجا رکھا تھا۔بیوی چھوڑ کر جا چکی تھی۔ آزاد تھے۔لڑکیاں کچن سنبھالتی تھیں۔کوئی چوکا برتن کرتی، کوئی سبزیاں کاٹتی۔ گل بانو کپڑے دھوتی اور ڈکٹیشن لیتی ۔علی گڑھ سے فکشن کا ایک بڈّھا بادشاہ آیا توحرم سے دو رسرچ اسکالر بھیجی گئیں۔پرانا عہد نامہ میں آیا ہے .....
’’ اور داود بادشاہ بڈّھا اور کہن سال ہوا اور وہ اسے کپڑے اُڑھاتے پر وہ گرم نہ ہوتا تھا۔سو اُس کے خادموں نے اس سے کہا کہ ہمارے مالک بادشاہ کے لیے ایک جوان کنواری ڈھونڈی جائے جو بادشاہ کے حضور کھڑی رہے اور اس کی خبر گیری کیا کرے اور تیرے پہلو میں لیٹ رہا کرے تا کہ ہمارے مالک بادشاہ کو گرمی پہنچے۔‘‘
مالک بادشاہ نے آنحضرت کی سمیناروں میں پیروی کی اور انعام و اکرام سے نوازا۔
ثاقب نے قرۃالعین حیدر کی ناول نگاری پر کام کیا تھا ۔ اس کی تھیسس مکمل ہو چکی تھی ۔وہ چاہتا تھا انٹرو یو کی تاریخ مل جائے لیکن چیئر مین کا دستخط باقی تھا۔وہ جب بھی تھیسس کی بات کرتا ابوپٹّی کوئی نہ کوئی بہانہ بنا دیتا۔اسے سینئر لڑکوں سے معلوم ہوا تھا کہ تاریخ یوں ہی نہیں مل جاتی۔بھاری رقم خرچ کرنی پڑتی ہے لیکن ثاقب کسی امیر باپ کا بیٹا نہیں تھا۔جے آر ایف کا جو وظیفہ ملتا اس سے اپنی پڑھائی اور ہاسٹل کے اخراجات پورے کرتا تھا۔اور اب تحقیق مکمل ہو گئی تھی تو وظیفہ بھی بند ہو چلا تھا۔
ثاقب انگریزی ادب کا بھی مطالعہ کرتا رہتا تھا۔اس کی صلاحیتوں کے سبھی معترف تھے۔ پروفیسر راشد اعجاز اس کے سپر وائزر تھے ۔ سب جانتے تھے کہ ثاقب کا مقالہ اس کی اپنی محنتوں کا ثمرہ ہے۔ کسی کو پیسے دے کر نہیں لکھوائے لیکن ثاقب غریب تھا۔
غریب ہو تو دکھ اٹھا نا پڑ ے گا۔
اور سکینہ وہاب.....؟موذن کی لڑکی....؟
گوبھی کے پھول میں بھی تازگی ہوتی ہے لیکن سکینہ کے چہرے پر تو خزاں کا رنگ مستقل وہم کی طرح چھایا رہتا۔آنکھوں میں درد، کسی کٹی ہوئی پتنگ کی طرح ڈولتا تھا۔ناک کی نوک اچانک بدھنے کی ٹوٹی کی طرح اوپر کو اٹھ گئی تھی ۔نظر پہلے ناک کے سراخوں پر پڑتی ۔پستہ قد تھی اور جسم تھٗل تھٗل تھا۔ اُسے کون پوچھتا۔ اساتذہ میں اس کے لیے کبھی تکرار نہیں ہوئی .....اور ثاقب کڑھتا تھا۔ وہ سکینہ وہاب کے لیے عجیب سی ہمدردی محسوس کرتاجو اُلجھن بھری تھی ۔کیوں چلی آئی پی ایچ ڈی کرنے ؟کون پوچھے گا اس کو ؟ لکچرر تو زندگی بھر نہیں ہو سکتی۔ کوئی پیروی نہیں کرے گا ؟ نہ تو اساتذہ کے پہلو گرم کر سکتی ہے نہ کمیٹی کے ممبران کی مٹھی۔پھر یہاں آئی کیوں ؟ غریب موذن کی لڑکی کو استانی ہونا چاہیے۔ گھر گھر میں اردو اور قران پڑھائے گی تو گذارا ہو جائے گالیکن پی ایچ ڈی کر لے گی تو نکمّی ہو جائے گی۔لیکن موذن کی لڑکی ذہین تھی ۔اس نے نفسیاتی کہانیوں پر تحقیق کی تھی ۔پروفیسر امجد اس کے نگراں تھے۔ وہ شاعری پڑھاتے تھے۔ فکشن سے زیادہ رغبت نہیں تھی۔ انہیں نفسیاتی ادب کی شد بد بھی نہیں تھی۔ افسانہانوکھی مسکراہٹ ضرور پڑھ رکھا تھااور اسی کا بار بار حوالہ دیتے تھے۔ وہ سکینہ کی رہنمائی کیا کرتے ؟ لیکن سکینہ نے بہت محنت کی۔دن بھر لائبریری میں بیٹھی پڑھتی رہتی ۔ثاقب نے اس کی 
مدد کی تھی۔اس نے پچاس سے زائد نفسیاتی افسانوں کی ایک فہرست تیار کی تھی اور سکینہ کو سب کی فوٹو کاپی مہیا کرائی تھی ۔ثاقب کی مدد سے سکینہ وہاب نے اپنا مقالہ مکمل کیا تھا۔اس کا مقالہ یونیورسٹی میں جمع بھی ہو گیا تھا لیکن وایوا کی تاریخ طے نہیں ہوئی تھی ۔
ثاقب کی نظر سکینہ وہاب پر پڑتی اور وہ کڑھنے لگتا۔ابھی ابھی وہ پروفیسر امجد کے چمبر سے نکلی تھی ۔
حسب معمول اس کے چہرے پر ٹوٹے پتّوں کا دکھ تھا لیکن کہیں سورج کی روپہلی کرنوں کا ہلکا سا رنگ بھی غالب تھا جو ثاقب کو نظر نہیں آیا۔
’’ کاٹتی رہو چکّر ڈپارٹمنٹ کے ....۔‘‘
’’ تاریخ مل گئی ۔ ‘‘وہ ہلکے سے مسکرائی ۔لیکن اس طرح مسکرائی جیسے رو رہی ہو۔
’’ ارے واہ۔مبارک ! ‘‘ ثاقب خوش ہو گیا۔
’’ لیکن ایک الجھن ہے ۔ ‘‘ خزاں کا رنگ پھر غالب ہو گیا۔
’’ اب کیا ہو گیا ؟ 
سکینہ نے ایک پرچہ ثاقب کی طرف بڑھا یا ۔اس نے ایک سرسری سی نظر ڈالی۔یہ تیس ناموں کی فہرست تھی۔
یونیورسیٹیاں بھی صارفی کلچر کا حصّہ ہیں۔رسر چ اسکالر پر واجب ہے کہ وایوا کے لیے باہر سے استاد اعظم تشریف لائیں توپنچ ستارہ ہوٹل میں ضیافت کا اہتمام ہو ورنہ تھیسس ردّ ہو سکتی ہے ۔
وایوا لینے جامعہ سے استاد اعظم تشریف لا رہے تھے۔وہ صرف لیگ کباب تناول فرماتے تھے۔ شعبہ سے فرمان جاری ہوا کہ حضرت کے لیے پر تکلف دعوت کا نظم کیا جائے۔ پروفیسر راشد نے مہمانوں کی فہرست بنائی ان میں رسر چ اسکالر اور شعبے کے دیگر اراکین کے نام بھی شامل تھے۔
تیس آدمیوں کی ہوٹل الکریم میں ضیافت... .؟ بٹر نان....بریانی....لیگ کباب...چکن ٹکّہ ...چکن بون لیس....فش فرائی.....!
غریب ہو تو الجھن میں مبتلا رہوگے۔
اور ثاقب غصّے سے کھول رہا تھا....۔
’’ تمہیں پتا ہے اخراجات کیا ہوں گے....؟‘‘
سکینہ خاموش رہی ۔
’’ پچاس ہزار خرچ ہوں گے...پچاس ہزار ۔‘‘
’’ سر کہہ رہے تھے اس سے شعبے کا وقار بڑھے گا۔‘‘
’’ تم شعبے کا وقار بڑھاؤگی؟ اساتذہ اپنا وقار بڑھا رہے ہیں اور تم استعمال کی جا رہی ہواحمق اسکالر۔
’’ تو کیا کروں ؟ ‘‘
’’ مرو !‘‘ ثاقب جھنجھلا گیا۔
سکینہ آبدیدہ ہو گئی۔
تم نے وظیفہ کی رقم سے پیسے کاٹ کاٹ کر اپنی شادی کے لیے جمع کیے ہیں لیکن صارفی کلچر تمہارا پیسا اپنے تصرف میں لائے گا اور تم وہیں کھڑی رہوگی۔کیا ضرورت تھی تمہیں پی ایچ ڈی کرنے کی دختر موذن... ؟اپنے سسٹم سے باہر جینا چاہ رہی ہو تو مرو. ..... طبقہ اشرافیہ کو تم قبول نہیں ہو۔تم موذن کی لڑکی ہو۔ معاشرہ موذن کو موذن کہتا ہے۔ موذن صاحب نہیں کہتا۔ صاحب کا لفظ امام کے لیے ہے ....‘‘
’’ ثاقب تم بھی ....! ‘‘ موذن کی لڑکی سسک پڑی۔
ثاقب خاموش رہا۔اسے ندامت ہو رہی تھی۔ وہ اپنا غصّہ اس معصوم پر کیوں اتار رہا ہے ؟خود اس کی تھیسس تو لنگی دار بکس میں بند ہے۔
ثاقب نے معافی مانگی۔
’’ ساری سکینہ....معاف کر دو۔‘‘
’’ کیریئر کا سوال ہے ثاقب۔ ‘‘
’’ ہم احتجاج بھی درج نہیں کر سکتے....‘‘ ثاقب ٹھنڈی آہ بھر کر رہ گیا ۔
سکینہ نے آنچل کے کونے سے اپنے آنسو خشک کیے۔


ابو پٹّی نے دوسرے دن سیاہ لنگی خریدی، بیگ میں رکھا اور دس بجے اپنے چمبر میں داخل ہوا۔ وہ اپنی کرسی کے بازو میں الگ سے ایک کرسی رکھتا تھا ۔زر بہار سلام کرتی ہوئی اندر داخل ہوئی ۔ ابو پٹی نے مسکراتے ہوئے جواب دیا 
’’ فارم کی خانہ پری کر لی ؟ ‘‘
’’ جی سر ! ‘‘ زر بہار نے فارم اس کی طرف بڑھایا۔
ادھر آؤ۔ اس کرسی پر۔’’ اابو پٹّی نے بازو والی کرسی کی طرف اشارہ کیا۔
زربہار کرسی پر اس طرح بیٹھی کہ دو نوں کے بازو آپس میں مس ہو گئے۔ابو پٹّی نے فارم پر سرسری سی نظر ڈالی۔۔‘‘ 
’’ یہ کیا...؟ صرف نام اور پتا درج کیا ہے۔‘‘
’’ سوچا آپ سے پوچھ کر بھروں گی۔ ‘‘ 
’’ بچّی ہو تم ....! ‘‘ابو پٹّی نے مسکراتے ہوئے اس کے گال تھپتھپائے۔زربہار ہنسنے لگی۔زلفوں کی لٹ رخسار پر جھول گیئ ابو پٹّی خوش ہوا کہ رخسار سہلانے کا برا نہیں مانا...اب آگے بڑھا جا سکتا ہے۔ ابو پٹّی نے ایک قدم آگے .....۔
اصل میں اس کے ہاتھ جسم کی دیواروں پر چھپکلی کی طرح رینگتے تھے ۔ چھپکلی کی نظر جس طرح پتنگے پر ہوتی ہے اس  طرح ابو پٹّی کی نظر بچی کے چہرے پر ہوتی کہ تاثرات کیا ہیں ...؟ کس طرح شرما رہی ہے .... برا تو نہیں ....جھنجھلاہٹ کے آثار تو نہیں ہیں ؟   ’نہیں’تو رہی... ؟ .بھنویں تو نہیں تن رہی .. .. کسی سے کچھ کہےگی گی؟ اگر سپردگی کے آثار نظر آتے تو دوسرا قدم بڑھاتا .... چہرے کا دونوں  
ہاتھوں سے کٹورہ سا بناتا اور پیشانی چومتا...کچھ دیر کرسی پر بیٹھ کر موضوع سمجھانے کی کوشش کرتا اور پیاری بچّی کہہ کر آنکھیں چومتا...پھر رخسار... اور رینگتے رینگتے چٹ سے تتلی پکڑ لیتا۔اگر ذرا بھی شبہہ ہوتا کہ بدک رہی ہے اور کسی سے شکایت کر سکتی ہے تو پیش قدمی روک دیتا اور ڈکٹیشن دینے لگتا۔
’’ دیکھو یہ ایک مشکل موضوع ہے۔ میں لکھا دیتا ہوں۔ ‘‘
اسے یقین دلاتا کہ وہ ایک بچّی ہے اور وہ اس کا بہت بڑا بہی خواہ ہے۔ ایک دو ابواب خود لکھ دیتا اور پھر دیوار پر رینگنے لگتا۔چھپکلی اگر مستقل رینگتی رہے تو ایک دو پتنگے پکڑ ہی لیتی ہے ۔
لیکن زربہار تو خود مکڑی کے جال کی طرف بڑھ رہی تھی۔ ابو پٹّی کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا تھا۔اس کے جی میں آیا فوراً دروازہ بند کرے اور لنگی پہن لے۔ اس نیت سے وہ اٹھ کر دروازے کی طرف بڑھا لیکن اسی پل سکندر طوفانی دھڑدھڑاتا ہوا چمبر میں داخل ہوا۔زر بہار فوراً اٹھ کر سامنے والی کرسی پر بیٹھ گئی ۔
’’ السلام وعلیکم ۔‘‘
’’ وعلیکم السلام ‘‘ 
’’ خاکسار کو سکندر طوفانی کہتے ہیں ۔‘‘ طوفانی نے مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھایا۔
ابو پٹّی کچھ گھبرا سا گیا تھا۔ ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ بغیر اجازت اندر آنے پر طوفانی سے باز پرس کرتا۔
’’ یہ میری چھوٹی بہن ہے ۔ ‘‘ طوفانی نے زر بہار کی طرف اشارہ کیا۔
’’ ماشا اللہ بہت ذہین بچّی ہے ۔ ‘‘ 
’’ اک ذرا خیال رکھیے گا حضور....!اور آپ مجھے تو جانتے ہی ہیں۔ ‘‘ طوفانی نے مسکراتے ہوئے کہا۔
وہ طوفانی کو جانتا تھا۔ اس نے ایک بار شعبہ انگریزی کے ایک پروفیسر کی اس کے چمبر میں پٹائی کر دی تھی۔وجہ تھی پروفیسر نے ایک طالبہ کے گال سہلائے تھے جو طوفانی کی گرل فرینڈ تھی۔
خطرے کی گھنٹی.....
ابو پٹّی نے اسی وقت فیصلہ کر لیا کہ زر بہار کو کوئی بھی لے جائے....وہ خود کو الگ رکھے گا۔
زر بہار ٹسٹ پاس کر گئی ۔سبھی پاس کر گئے۔ ان کا بٹوارہ ہوا۔ پروفیسر راشد اعجاز کو زربہار پسند آ گئی۔ اس نے فوراً اس کو اچک لیا۔اب اس کا میدان فکشن تھا۔پروفیسر نے اس کے لیے موضوع کا انتخاب کیا۔
قرۃ ا لعین حیدر کی ناول نگاری''  
دن گزرتے رہے. ثاقب کی تھیسس اسی طرح شعبے میں پڑی رہی . ایک دن معلوم ہوا کہ پروفیسر اعجاز اس کی تھیسس چیر مین سے مانگ  کر لے گے ہیں.وہ پروفیسر سے ملا.
’’ اس میں ترمیم کرنی ہوگی ۔ ‘‘
’’ کیسی ترمیم سر ؟‘‘
آپ نے قرۃالعین کو ورجینیاوؤلف سے متاثر بتایا ہے کہ شعور کی رو تکنیک قرۃا لعین نے ورجینیا سے مستعار لی ہے ۔ 
’’ جی سر ! ‘‘
’’ لیکن آپ نے دلائل نہیں دیے ہیں۔وؤلف کے ناولوں کا نام لیجیے اور وہ عبارت کوٹ کیجیے جس میں اس تکنیک کا استعمال ہوا ہے ، ساتھ ہی قرۃالعین حیدرکے ناول کا بھی اقتباس پیش کیجیے جس سے شعور کی رو کا پتاچلے ۔ ریسرچ اسی کو کہتے ہیں ورنہ سوئپنگ ریمارک سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ آپ نے یہ بات کسی سے سن لی اور لکھ دیا۔ 
’’ لیکن سر یہ بات آپ نے پہلے نہیں بتائی ۔‘‘
’’ اب بتا رہا ہوں ۔اس وقت یہ بات ذہن میں نہیں آئی تھی ۔ ‘‘
’اس کا ایک ایک باب آپ پڑھ چکے ہیں’اوکے کر دی تھی لیکن سر تھیسس توآپ نے ‘ ۔۔ ‘‘
’’آپ میں یہی خرابی ہے۔ اپنے استاد کی بات نہیں سنتے ہیں۔یہ تھیسس اگر ایکسپرٹ کے پاس بھیجی گئی اور اس نے خامیاں نکال دیں تو ....؟
ثاقب نے حسب خواہ ترمیم کر دی لیکن راشد اعجاز گھاس نہیں ڈال رہے تھے ۔وہ جب بھی ملنے جاتا کمرہ اندر سے بند ملتا۔ایک بار اس نے تہیہ کر لیا کہ مل کر ہی جائے گا۔ باہر ٹول پر بیٹھا رہا۔ دروازہ کھلا تو زربہار دوپٹّہ درست کرتی ہوئی باہر نکلی تھی۔ ثاقب نے محسوس کیا کہ اس کی چال میں ہلکی سی لنگڑاہٹ ہے۔پروفیسر بھی پینٹ کا بیلٹ کس رہے تھے۔ ثاقب کی نظر فرش پر رکھے ہوئے بیگ پر پڑی جس کا زپ پوری طرح بند نہیں ہوا تھا۔ زپ کے کونے پر بیگ آدھا کھلا ہوا تھا جس سے گلابی رنگ کی لنگی جھانک رہی تھی ۔ 
’ ‘کیا ہے سر ....’ری رائٹ‘  میں نے اس باب کو ’
’’ ابھی مصروف ہوں۔ کل دکھایئے گا۔ ‘‘
’’ سر ...ایک نظر دیکھ لیتے ۔ ‘‘
’’ آپ میں یہی خرابی ہے۔ استاد کی بات نہیں مانتے۔ ‘‘
ثاقب سر جھکائے کمرے سے نکل گیا۔

استاد اعظم جامعہ سے تشریف لائے۔شعبہ میں چہل پہل تھی۔تیس آدمیوں کے لنچ کے لیے    الکریم بک ہو  ’ ‘ گیا ۔مہمانوں کے آنے جانے کے لیے سکینہ کو کار کا انتظام بھی کرنا پڑا ۔
دن کے گیارہ بجے سے وایوا شروع ہو گیا۔ شعبہ کے سمینار ہال میں کرسیاں لگا دی گئی تھیں۔ ایک صف اساتذہ کی تھی۔ درمیان میں استاد اعظم جلوہ فگن تھے۔ سامنے کی کرسی پر سکینہ بھیگی بلّی کی طرح بیٹھی تھی جیسے مقتل پہنچ گئی ہو اور اب فرماں روا حکم صادر کریں گے ۔سکینہ کے پیچھے بھی کرسیوں کی قطار تھی جن پر طلبا براجمان تھے۔ ان سے الگ طالبات کی قطار تھی۔
استاد اعظم کے ہاتھ میں اسپائرل باینڈنگ سے مزیں تھیسس کا نسخہ تھا جسے الٹ پلٹ کر وہ اس طرح دیکھ رہے تھے جیسے قربانی سے پہلے بکرے کے دانت دیکھے جاتے ہیں۔
’’آپ نے ایسے موضوع کا انتخاب کیوں کیا ؟نفسیاتی کہانیاں..... ؟ ہر کہانی نفسیاتی ہوتی ہے ۔ ‘‘
’’ سر کچھ انسانی رویّے اتنے پر اسرار ہوتے ہیں کہ انہیں سمجھنے کے لیے ان نظریات اور افکار سے مدد لینی ہوگی جو ماہر نفسیات نے وضع کیے ہیں۔ ‘‘
’’اچھا...؟ کس کس کو پڑھا آپ نے ...؟ ماہرین کا نام تو لیجیے ۔‘‘
سکینہ نے گھبراہٹ سی محسوس کی۔
’’ بتایئے...فرائڈ کا کارنامہ کیا ہے ؟ ‘‘
’’ لا شعور کی بازیافت ۔ ‘‘
یونگ...؟‘‘
’’ اجتماعی شعور...آرکی ٹائپ کی دریافت اسی نے کی ۔ ‘‘
استاد اعظم نے پہلو بدلا۔ پھر اچانک تھیسس کا ایک ورق پلٹتے ہوئے بولے ۔
’’ املا کی بہت غلطیاں ہیں آپ کے یہاں۔ ‘‘
’’ ٹائپنگ مسٹیک ہے سر۔‘‘
’’ یہ کیا جواب ہوا ؟ سدھارنے کے لیے میرے پاس لائی ہیں ؟ ‘‘
سکینہ چپ رہی۔ 
استاد اعظم نے کچھ اور ورق پلٹے۔
’’ یہ کیا....؟ اسی طرح فہرست سازی کی جاتی ہے ؟ صرف کتابوں کا نام لکھا ہے۔سن اشاعت بھی نہیں لکھا۔ پبلشر کا نام بھی نہیں ہے ۔یہ بہت غلط بات ہے...بہت غلط بات 
’’ لیکن بچی نے محنت تو کی ہے ۔ ‘‘ پروفیسر ہاشمی نے مداخلت کی۔
استاد اعظم مسکرائے۔ ’’ محنت تو سبھی کرتے ہیں ‘‘۔
لیکن ایک بات ہے۔تحریر اوریجنل لگتی ہے ۔استاد اعظم اسی طرح مسکراتے ہوئے بولے‘‘ ۔
’’ ابو پٹّی نے جھک کر آہستہ سے کہا۔ ’’ لنچ کا بندوبست الکریم میں ہے ۔ ‘‘
الکریم میں تیس آدمیوں کی جگہ مخصوص تھی۔زربہار پروفیسر اعجاز سے چپکی نظر آ رہی تھی۔ وہ جدھر جاتے ادھر جاتی۔وہ بیٹھے تو بغل میں بیٹھی۔ وہ اٹھے اور استاد اعظم کی پاس والی کرسی پر بیٹھیے تو وہاں بھی چپک گئی لیکن سکینہ وہاب کھڑی رہی ۔کوئی اسے بیٹھنے کے لیے نہیں کہہ رہا تھا۔ثاقب نے کہا۔
’’ آو بیٹھو۔ ‘‘
’’ میں کیسے بیٹھ سکتی ہوں ؟ میں میزبان ہوں۔‘‘
’’ تم احمق ہو ۔ ‘‘ ثاقب کو غصہ آ گیا۔
موذن کی لڑکی ..... غریب ..... بدصورت ....تم ملازمہ کی طرح کونے میں کھڑی رہوگی۔اساتذہ برات لے کر آئے ہیں ۔تم جہیز کی رقم ادا کروگی ....پچاس ہزار....!
ثاقب بھنّاتا ہوا ہوٹل سے باہر چلا گیا۔
لیکن موذن کی لڑکی کو ڈگری مل گئی۔وہ اب ڈاکٹر سکینہ وہاب تھی۔
ثا قب نے اپنے مقالہ میں دوبارہ ترمیم کی ۔ورجینیا وؤ لف کے ناول  لائٹ  ہاؤس  کا  اقتباس پیش کیا   ‘‘مطمئن نہیں  پروفیسر ا عجاز مطمئن نہیں تھے انہوں نے    کوٹ کی لیکن  خانےکی عبارت بھی  ’ میرے بھی صنم  ‘ اور عینی کے ناول ’
   چند اور مثالیں پیش کرنے کی ہدایت دی۔ثاقب کو احساس ہوا کہ اس کا مقالہ مکمل نہیں ہوگا...؟ اس کے ارد گرد کانٹے سے اُگ آئے ہیں... وہ انہیں صاف نہیں کر سکتا۔
لیکن ثاقب کو ایک نشتر اور لگا۔ یہ کم گہرا نہیں تھا۔
زر بہار اس دن اترا کر چل رہی تھی اور ساختیات پس ساختیات کی باتیں کر رہی تھی۔اس کے ہاتھ میں ایک رسالہ تھا جس میں اس کا مضمون شائع ہوا تھا۔ وہ سب کو دکھاتی پھر رہی تھی۔ ثاقب نے دیکھا تو....
’’ ارے....ارے...ارے....یہ تو میرا مضمون ہے ۔ ‘‘
’’ ما بعد جدیدیت کے اسرار۔ یہ میں نے لکھا ہے۔ تم نے اپنے نام سے کیسے شائع کرا دیا ؟ ‘‘
’’ آپ کا مضمون کیسے ہو گیا جناب ؟ 
’’ با لکل میرا ہے۔ تم نے چوری کی ہے۔‘‘
’’ آپ کے نام سے کہیں شائع ہوا ہے تو بتایئے۔‘‘
’’میں نے کہیں شائع نہیں کرایا۔ میں اس سے مطمئن نہیں تھا تو پھاڑ کر پھینک دیا اور یہ تمہارے ہاتھ لگ گیا ۔‘‘
’’ واہ ! کیا لاجک ہے ؟ ‘‘
’’میں تم پر مقدمہ دائر کروں گا ۔ ‘‘
’’ آپ مجھے دھمکی دے رہے ہیں۔ میں سر سے کہوں گی۔ ‘‘
’’سر نے ثاقب کو بلوایا۔زر بہار بھی بیٹھی ہوئی تھی۔
’’ آپ ان کو دھمکی کیوں دے رہے ہیں ؟‘‘
’’ میں کوئی دھمکی نہیں دے رہا ہوں سر۔لیکن انہوں نے میرا مضمون اپنے نام سے شائع کرا دیا ہے۔ ‘‘
’’ کیا ثبوت ہے آپ کے پاس ؟ مضمون کی نقل دکھایئے ۔ ‘‘
’’ نقل نہیں ہے ۔‘‘
’’ کیوں ؟ ‘‘
’’میں نے اپنی ڈائری میں لکھا تھا لیکن مجھے معیاری نہیں لگا تو پھاڑکر پھینک دیا کہ دوبارہ لکھوں گا۔‘‘
’’اس بچّی نے بہت محنت کی ہے۔میں گواہ ہوں ۔ میری رہنمائی میں اس نے لکھا ہے اور آپ اس پر الزام لگا رہے ہیں ؟ جایئے اپنی تھیسس مکمّل کیجیے۔‘‘
غصّے سے ثاقب کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اس کے جی میں آیا کھری کھری سنا دے کہ ہم جب بھی کوئی مقالہ لے کر آئے آپ نے گھاس نہیں ڈالی۔ یہ کہہ کر ٹال دیا کہ ابھی سے مضامین لکھنے کی ضرورت نہیں ہے اور اس جاہل لڑکی پر اتنی عنایت .... ؟
کمزور آنسو پیتا ہے ۔
ثاقب آنسو پی گیا۔اس نے خود کو ہی کوسا۔غلطی اس کی ہے۔مضمون پھاڑ کر پھینکنے کی کیا ضرورت تھی۔رہنے دیتا ڈائری میں۔ اس حرّافہ کے ہاتھ تو نہیں لگتا؟
اساتذہ کے رویے سے ثاقب دل برگشتہ ہو گیا تھا۔ شعبہ میں اس کا آنا جانا کم ہو گیا ۔اس نے تھیسس میں کئی بارترمیم کی لیکن پروفیسر اعجاز کو ہر بار کمی محسوس ہوئی ۔
قدرت بھی کبھی پے درپے زخم لگاتی ہے۔
اس بار ثاقب سنبھل نہیں سکا۔وہ ایک دکان پر کچھ مسوّدے کی فوٹو کاپی کرانے گیا تھا۔ وہاں اسے زربہار کی تھیسس نظر آئی اور اس کے قدموں تلے زمین جیسے کھسک گئی۔ یہ ا س کی اپنی تھیسس تھی جسے زر بہار نے اپنا نام دے دیا تھا۔اس نے دکان سے تھیسس اٹھائی۔ دکان دار اسے روکتا ہی رہ گیا لیکن وہ سیدھا شعبے میں پہنچا۔ وہ پاگل کی طرح زر بہار کو ڈھونڈ رہا تھا۔ وہ اسے کاری ڈور میں نظر آئی۔
’’ کیوں رے حرّافہ ...؟ یہ تیری تھیسس ہے ؟ ‘‘
زر بہار کانپ گئی۔
ثاقب نے اسے دونوں ہاتھوں سے دبوچا ۔
’’ میری تھیسس چوری کرتی ہے۔‘‘
’’ تمیز سے بات کیجیے۔ ‘‘
’’ تمیز سے بات کروں تجھ سے.....؟ ازاربند کی ڈھیلی دوسروں کو تمیز سکھاتی ہے....؟ ‘‘
’’ چھوڑیئے مجھے.....‘‘
ثاقب نے اسے دیوار سے اڑا دیا۔ ’’ لنگی میں رسرچ کرتی ہے کمرے میں بند ہو کر ....۔‘‘
’’ مجھے جانے دیجیے۔ ‘‘
’’ ساختیات اور پس ساختیات ....؟ ‘‘
’’ میں کہتی ہوں چھوڑیئے مجھے ۔ ‘‘
’’ثاقب نے اس کی  چھوڑوں تجھے...؟ میرا مضمون چوری کرلیا، میری تھیسس چوری کر لی اور تجھے چھوڑ دوں....۔‘‘ چھاتیاں زور سے دبائیں۔
زر بہار سسک پڑی۔
ثاقب نے اس کی جانگھ اپنی جانگھ سے بھڑا دی ۔
’’ میری جان ..... صرف لُنگی بردار کو دوگی...؟ ‘‘
لڑکے اس کے ارد گرد جمع ہو گئے۔
’’کیا کرتے ہو ثاقب...؟ چھوڑو اِسے۔ ‘‘
’’ میری تھیسس چوری کی ہے۔‘‘
’’ اس کو ذلیل کرنے سے کیا فائدہ ہے ؟ اس پروفیسر سے کہو جو ریسرچ کے نام پر جنسی استحصال کرتا ہے، پیسے لیتا ہے اور تھیسس بیچتا ہے۔ ‘‘
لڑکوں نے کسی طرح اس کو زربہا ر سے چھڑایا ۔
ثاقب سیدھا پروفیسر راشد اعجاز کے چمبر میں گھسا۔ اس کی پشت پر لڑکے بھی تھے ۔
’’ سن لے لنگی بردار....! جس دن تیری داشتہ کو وایوا کی ڈیٹ ملی اس دن ایف آئی آر درج کر اوں گا ۔‘‘
شعبے نے چپّی سادھ لی۔ سب کو سانپ سونگھ گیا۔
ثاقب نے بھی ڈپارٹمنٹ چھوڑ دیا اور فوٹو کاپی کی دکان کر لی۔
وہ مسوّدے کی اسپائرل بائینڈنگ کرتا ہے اور کمزور بچّوں کی تھیسس لکھتا ہے ۔
***

Sunday, June 11, 2017

افسانچے

انجینئر محمد فرقان سنبھلی


افسانچے

1

    غلطی   

’’سنو تم اگر چاہو تو میرے ساتھ میرے گھر چل سکتی ہو۔‘‘ ارشد نے شلوار سوٹ میں ملبوس نوعمر لڑکی کو دعوت دی۔ ’’لیکن …آپ بھلا میری وجہ سے کیوں پریشان ہوں۔‘‘ لڑکی نے ہچکتے ہوئے کہا۔ ’’نہیں مجھے کیا پریشانی ہو گی۔میں تو گھر پر اکیلا ہی رہتا ہوں۔‘‘ ارشدنے سمجھایا۔ ’’ہاں اگر تمھیں مجھ سے خوف لگتا ہے تو پھر کوئی اور جگہ کی بات سوچیں۔‘‘
ارشد کی بات پر لڑکی تڑپ اٹھی ’’ارے نہیں …بھلا آپ سے میں کیوں ڈروں گی۔آپ نے مجھ ابلا کی جان بچائی ہے۔‘‘ دونوں ایک رکشے پر سوار ہو گئے۔ ’’تم اکیلی گھر سے اتنی دور کیسے اور کیونکر آ گئیں۔‘‘ ارشد نے پوچھا تو لڑکی اداس ہو گئی۔
’’میرا ایک پڑوسی لڑکا مجھے بہلا پھسلا کر یہاں بھگا لایا اور پھر مجھے غنڈوں کے ہاتھ فروخت کر کے بھاگ گیا۔ یہ وہی غنڈے تھے جن سے آپ نے میری جان بچائی ہے۔‘‘ ارشد کو لڑکی سے جانے کیوں بڑی ہمدردی پیدا ہو گئی تھی۔ گھر پہنچ کر ارشد نے لڑکی کو آرام کرنے کو کہا اور خود کھانا لانے چلا گیا۔ راستے میں کئی لوگوں نے لڑکی کے بابت دریافت کیا تو ارشد کو بڑی کوفت ہوئی۔ کئی لوگوں نے تو مشورہ بھی دیا کہ کہیں اس لڑکی ک اشکار مت بن جانا۔ آج کل ایسے کیس بہت ہو رہے ہیں کہ انجان لڑکی نے گھر لوٹے۔ارشد کو ان لوگوں کی باتوں پر غصہ تو بہت آیالیکن پھر بھی اس نے دل میں فیصلہ کر لیا کہ وہ لڑکی سے محتاط رشتہ رکھے گا اور جلد ہی اسے اس کے گھر روانہ کر دے گا۔
خیالات میں گم ارشد کھانا لے کر گھر پہنچا تو وہ یہ دیکھ کر دنگ رہ گیا کہ لڑکی نہا دھو کر سلیپنگ گاؤن پہنے اخبار پڑھ رہی تھی۔ارشد نے لڑکی کوکنکھیوں سے دیکھا تو وہ بھی اسے ہی دیکھ رہی تھی۔ کھانا کھا کر دونوں سونے کے کمرے میں آ گئے۔ اچانک بہت تیز بجلی چمکی اور بادل گرجا تو لڑکی ڈر کر ارشد سے لپٹ گئی۔پھر برسات کی پھواروں کے درمیان وہ سب کچھ ہو گیا جس کے بارے میں ارشد نے سوچا بھی نہ تھا۔ بارش تھم چکی تھی۔ارشد کی آنکھ کھلی تو وہ بیڈ پر اکیلا ہی س ورہا تھا۔اچانک اسے لڑکی کا خیال آیا تو اس نے اسے ڈھونڈنے کی کوشش کی لیکن وہ کہیں نہ ملی۔ اچانک اسے ٹیبل پر رکھا کاغذ دکھا۔ اس نے جیسے ہی اسے پڑھا اس کا جسم کانپ کر رہ گیا۔ کاغذ میں لکھا تھا ’’ویلکم ان ایڈز فیملی‘‘
٭٭٭

2
   اپنے دکھ مجھے دے دو    

’’کتنی بار کہا ہے کہ تم کسی بات کی بھی ٹینشن مت لیا کرو۔ میں ہوں نا۔‘‘
ارسلان نے خوشی کے ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا تو خوشی اسے دیکھتی ہی رہ گئی۔دونوں ایک ہی کمپنی میں نوکری کرتے تھے اور موقع ملنے پر سکھ دکھ بانٹنے بیٹھ جاتے تھے۔
’’اب کیا پریشانی ہے ‘‘ ارسلان نے کہا۔ ’’ایک ہو تو کہوں ‘‘ ۔ خوشی نے قدر خفگی سے کہا۔ ’’کہو تو صحیح‘‘
’’میری نوکری چھوٹ گئی۔‘‘
’’چلو یہ تو ا چھا ہوا۔میں تو کب سے کہہ رہا تھا کہ نوکری چھوڑ ہی دو۔‘‘
’’لیکن نوکری نہیں ہو گی تو میری بیمار ماں کی دوا، گھر کا خرچ اور بہن کی شادی کیسے ہو گی۔‘‘
’’میں ہوں نا -تم اپنے تمام دکھ مجھے دے دو۔‘‘
’’ماں کی دوائی …‘‘
’’میں لا دیا کروں گا۔‘‘
’’گھر کا خرچ کیسے چلے گا میرا تو کوئی بھائی بھی نہیں ہے۔‘‘
’’میرا تو اس دنیا میں تمہارے سوا کوئی نہیں ہے میں تمہارا گھر ہی اپنا سمجھوں گا اور گھر کا خرچ چلاؤں گا۔ ‘‘
’’سچ مچ تم مجھ سے بہت پیار کرتے ہو نا‘‘
’’ہاں بہت زیادہ ‘‘
’’تو میری ایک بات مانو گے‘‘
’’کہو‘‘
’’تم میری بہن سے شادی کر لو ‘‘ خوشی نے کہا تو جیسے ارسلان کو بچھونے ڈنک مار دیا ہو ’’کیا…کیا    کہہ   رہی ہو خوشی‘‘
’’ہاں اور تم میرے بھیا بن جاؤ ‘‘ خوشی کی بات پر ارسلان اچھل ہی تو پڑا۔
’’اگر تم میرے دکھ لے لو گے تبھی تو میں سکون سے ارشد کی دلہن بن سکوں گی جو کب سے میرے لیے انتظار کے دیپ جلائے بیٹھا ہے۔‘‘ ***


Thursday, June 8, 2017

افسانہ - - ویران جنگل اور کتا


ڈاکٹر ریاض توحیدی ؔ 


وڈی پورہ ہندوارہ کشمیر(انڈیا)


ویران جنگل اور کتا


                وہ بر سوں سے میٹھی نیند کے لئے ترس رہا تھا۔جب بھی اُس کی آنکھ لگ جاتی تو اُس کے اندر سے بھوں بھوں کی تکرار شروع ہو جاتی اور وہ بستر پر کر وٹیں بدل بدل کر سویرے کا انتظار کرتا رہتا۔سویرا ہونے کے باوجود بھی وہ تکیے سے ٹیک لگا کر سر تھامے دیر تک سوچتا رہتا کہ نیند آتے ہی اُس کے اندر سے کیوں بھوں بھوں کی تکرارشروع ہوجاتی ہے....؟ اُسے تو کبھی کسی کُتے نے کاٹا بھی نہیں ہے تو پھر۔۔۔؟ اب وہ کیسے اس حالت سے چھٹکارا پائے....؟ ڈاکٹر لوگ بھی ناکام ہو چکے تھے۔ماہرینِ نفسیات کی ہدایت تھی کہ سونے سے پہلے سوچنا بند کرنا‘سوچنا توبند ہو گیا لیکن بھوں بھوں کی تکرار جاری رہی۔پیروں فقیروں کے گنڈے تعویز سر پر باندھتے باندھتے وہ تھک چکا تھا۔ دفتر جاتے جاتے بھی اُس کی آنکھوں پر نیند کا خُمار چھایا رہتا تھا اور اُس کی توجہ آوارہ کتوں کی ہٹر بونگ کی طرف چلی جاتی تھی۔ ناچاہتے ہوئے بھی اُس کے قدم کچھ پل کے لئے رُک جاتے اور وہ کچرے کے ڈھیر پر آوارہ کتوں کی لپٹ جھپٹ دیکھتا رہتا لیکن جب کتوں کی بھوں بھوں اُس کے اندر کھلبلی مچا دیتے تو وہ اپنے قدم آگے بڑھاتا تھا تا ہم چلتے چلتے اُس کی طبیعت پر بھوں بھوں کی آوازیں خوش گوار اثر چھوڑ جاتیں اور وہ مڑ مڑ کر کچرے کے ڈھیر کی طرف دیکھتا رہتا۔ وہ اب سرکاری نوکری سے سبکدوش ہو رہا تھا۔سرکاری افسری کرتے کرتے اُس کے تمام خواب پورے ہوئے تھے۔ بچے پڑھ لکھ کر اچھے اچھے عہدوں پر تعینات تھے‘ گاڑی بنگلہ بھی تھااور زمین جائیداد بھی خوب کمائی تھی۔آج اُسے بے حد مسرت ہو رہی تھی کیونکہ محکمے نے اس کے لئے ایک شاندار الوداعی پارٹی کا پروگرام بنایا تھا۔وہ وقت پر وہاں پہنچ گیا اور تقریب شروع ہونے کے ساتھ ہی اُس کے حق میں تعریفوں کی گردان شروع ہوگئی۔ تعریفیں سُن سُن کر اُسکا سینہ پھولتارہا۔آخر پر جب صدر محفل صدارتی خطبہ دیتے ہوئے بول پڑا کہ میں نے آج تک اس جیسے فرض شناس اور ایماندار افسر کم ہی دیکھے ہیں تو ایمانداری کا لفظ سنتے ہی اُس پر اُونگھ سی طاری ہوگئی اور اس کے اندر سے بھوں بھوں کی آوازیں گونجنے لگیں۔گونجتی آوازوں نے اسے اپنے دفتر کی چہار دیواری میں پہنچا دیاجہاں اُس کے سامنے اُس غریب انسان کا چہرہ آگیا جس کا مکان شدید زلزلے سے تباہ ہو گیا تھا اور وہ سرکاری امداد سے محروم ہوا تھا کیونکہ اُسے رشوت دینے کی سکت نہیں تھی۔وہ ابھی اُونگھ ہی رہا تھا کہ مائیک کی آواز نے اُسے چونکا دیا۔الوداعی پارٹی ختم ہونے کے بعد جب وہ گھر لوٹ رہا تھا تو کچرے کے نزدیک پہنچ وہ حیران ہو کر ہکا بکا ہوگیا۔ ”بھوں بھوں کی آوازیں کہاں گئیں ...؟“یہ خیال آتے ہی وہ کچرے کی طرف دیکھنے لگا۔ ”یہ کیا....؟“حیران ہو کر اس کے منھ سے نکل پڑا۔ ”کچرا کیسے ختم ہو گیا اور یہ کتے مٹی کے ڈھیر پر کیوں اونگھ رہے ہیں ....؟“ ”لیکن میرے ذہن پر کچرے کے خیالات کیوں چھائے ہوئے ہیں ....؟“وہ گھر کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے سوچنے لگا۔”ویسے اچھا ہی ہواکیونکہ اس کچرے نے بستی کا ماحول آلودہ کر رکھا تھا۔“ گھر میں داخل ہوتے ہی وہ صوفے پر بیٹھ کر سستانے لگا۔ آنکھیں بند کرتے ہی اس کے اندر امید و بیم کی کشمکش شروع ہوگئی۔ کبھی اپنے شاندار ماضی کا تصوّر اُسے زیر لب مسکرانے پر اُکسا رہا تھا اور کبھی مستقبل کی تنہائی کے خوف سے اُس کے اوسان خطا ہو رہے تھے۔ سب کچھ ہونے کے باوجود بھی اُسے آج اپنا آپ بے سہارا سا لگ رہا تھا۔اس کی بیوی چند مہینے پہلے انتقال کر گئی تھی اور بچے تو یورپ میں سٹل ہوگئے تھے۔وہ کبھی کبھی فون پر اُسے دلاسہ دیتے رہتے تھے کہ ڈیڈی‘زندگی کا کاروان ایسے ہی چلتا ہے‘جو ایک دفعہ سرکاری کرسی پر بیٹھ گیا تو اُسے ایک دن یہ کرسی چھوڑنی بھی پڑتی ہے۔بچوں کی باتیں یادکر کے وہ اُداس ہو کر سوچنے لگا کہ کیا اسی تنہائی کو جھیلنے کے لئے وہ عمر بھر کماتا رہا اور جن بچوں کی زندگی بنانے میں اُس نے کبھی اچھے بُرے کی پروا نہیں کی‘وہ آج جبکہ اُسے اُن کے پیار و محبت کی ضرورت ہے‘فون پر ہمدردی جتا کر حق والدین کا فرض نبھا رہے ہیں۔بچوں کی لا پرواہی پر افسوس کرتے ہوئے اُس کا ضمیر اُسے کوسنے لگا: ”اے لالچی انسان‘عمر بھر تو دوسروں کے حق پر ڈاکہ ڈالتا رہا اور اب بچوں کی غفلت شعاری پرافسوس کر رہا ہے؟“ اس کا ذہن ابھی ان ہی خیالات میں اُلجھا ہوا تھا کہ اُسے ایسا محسوس ہونے لگا کہ اُس کے اندر سے بھوں بھوں کی تکرار پھر سے شروع ہوگئی اور اُس کی زبان منھ سے باہر آرہی ہے۔وہ ہڑ بڑاتے ہوئے آئینے کے سامنے کھڑا ہوگیا۔اپنا حُلیہ دیکھ کر اُس پر وحشت سی طاری ہو گئی: ”نہیں نہیں‘میرے ہاتھ پاؤں تو صحیح سلامت ہیں .“ وہ اپنے جسم کا جائزہ لیتے ہوئے خود کو دلاسہ دینے لگا۔”مگر میری پیاس کیوں بڑھ رہی ہے؟“
”نہیں‘پیاس تو روز لگتی ہے؟“
بڑ بڑاتے ہوئے وہ گھر سے نکل کر لان میں چلا گیا اور نل سے منھ لگا کر غٹا غٹ پانی پینے لگا۔حد سے زیادہ پانی پینے سے اُس کی سانسیں پھولنے لگیں۔سانسیں پھولنے کے ساتھ ہی وہ لان کے سبزے پر پاؤں پسار کر لیٹ گیا۔ شام کے دھندلے سائے پھیل رہے تھے۔چنار کے اوپر کوے کائیں کائیں کر رہے تھے۔ کائیں
کائیں کی آواز سے اُس کی آنکھیں کُھل گئیں۔اُس کے ذہن پر ابھی بھی انتشار چھایا ہوا تھا۔وہ اپنے بکھرے خیالات کو سمیٹتے ہوئے لان میں چہل قدمے کرنے لگا۔اسے اپنے حویلی نما مکان کی تنہائی ویران جنگل کی طرح محسوس ہورہی تھی۔کچھ دیر بعد ویرانی کا احساس لئے وہ دوبارہ گھر کے اندر چلا گیا اور بے خودی کے عالم میں گھر کے دروازے کھڑکیاں کھولتا رہا۔دروازے کھڑ کیاں کُھلتے ہی چنار پر بیٹھے کوے کائیں کائیں کرتے ہوئے مکان کے در و دیوار پر چھا گئے۔کوؤں کے شور و غل سے وہ پھر بے چین ہوگیا۔تھوڑی دیر کچھ سوچتے سوچتے وہ گھر سے نکل کر کچرے والی جگہ کی طرف چلا گیا۔وہاں پر اب بھی کتے اونگھ رہے تھے۔ایک کتے کے گلے میں پٹہ لگاہوا تھا۔قدم خود بہ خود کتے کی طرف بڑھنے لگے۔چندلمحوں تک وہ کتوں کو دیکھتا رہا پھر اچانک ہاتھ نے ایک کتے کے پٹے کی زنجیر پکڑلی۔زنجیر پکڑتے ہی دل میں اطمینان کی کیفیت پھیل گئی۔وہ کتے کو ساتھ لے کر گھر میں داخل ہوا۔بیڈ روم کے صوفے پر بیٹھتے ہی وہ ہاتھ سے کتے کے سر کو سہلانے لگا۔اس کے اندر ایک خوش گوار احساس مچلنے لگا اور جذبات میں آکر کتے کو گلے سے لگاتے ہی وہ بڑ بڑانے لگا کہ اُسے فضول میں ویران جنگل کاغم کھائے جارہا تھا‘وہ کہاں تنہا ہے۔۔۔؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


Monday, June 5, 2017

افسانہ --- نادان بھائی

ڈاکٹر اسلم جمشید پوریؔ


رمضان کے منظر نامے میں خواتین کے ایک اہم مسئلے کو عمدگی سے سمیٹے ہو ئے ایک منفرد کہانی

نا دان بھائی

”سلام علیکم امی جان!“ ”سلام علیکم ابو جان!“ ”چاند دکھائی دے گیا ابو جان........“  ثنا نے تیز قدموں سے چھت کی سیڑھیاں اترتے ہوئے کہا۔اتنے میں با ہر سے ساجد دوڑتا ہوا آیا۔ اپنی سانسیں درست کرتے ہوئے بولا۔  ”رمضان کا چاند دکھ گیا ہے۔ سب کو سلام علیکم۔ابو..........آج سے تراویح شروع ہو جائیں گی نا؟“  ”ہاں بیٹا ساجد......آپ اچھے بچے ہیں۔ آپ تراویح کی نماز کے لیے میرے ساتھ چلئے گا۔“مرزا حشمت علی نے بیٹے کو سمجھایا۔  پورے محلے میں شور شرابہ شروع ہو گیا تھا۔ مسجدوں سے اعلان ہو رہا تھا۔ رمضان کی اہمیت بتائی جا رہی تھی۔ سحر اور افطار کا وقت بھی بتایا جارہا تھا۔ بچے شور مچاتے ٹولیوں کی شکل میں ٹوپیاں لگائے اِدھر اُدھر دوڑ رہے تھے۔ خرید و فروخت کا سلسلہ بڑھ گیا تھا۔ دودھ، ڈبل روٹی۔ شیر مال۔لچھے،کھجور،فینی وغیرہ کی فروخت ہونے لگی۔  رمضان بھی کس قدر رحمت کا مہینہ ہے۔ گیارہ مہینے الگ۔ رمضان کا مہینہ الگ۔ خدا کی رحمتیں اور برکتیں ایسی عام ہوتی ہیں کہ کوئی بد نصیب ہی ان سے محروم رہتا ہوگا۔نماز کا اہتمام بڑھ جاتا ہے۔ مساجد اتنی بھر جاتی ہیں گویا محلے کے محلے مسلمان ہو گئے ہوں۔ ہر طرف سروں پر ٹوپیاں نظر آتی ہیں۔بچے اور بوڑھے خاص کر زیادہ تعداد میں نظر آنے لگتے ہیں۔ بچوں کے تو جیسے مزے ہی آ جاتے ہیں .......سحری میں آنکھ کھل گئی تو سحری کھائی۔ شام کو افطار میں بھی انواع و اقسام کی چیزیں۔ روح افزا کا شربت۔ رمضان میں اس کا مزا دو گنا ہو جاتا ہے۔ طرح طرح کی پکو ڑ یاں۔ آلو، بیگن،پالک، گوبھی کی پکوڑیاں ........چھولوں کی چاٹ، فروٹ چاٹ، انڈے کے پکوڑے، بریڈ پکوڑا،لسّی،غرض اتنی نعمتیں کہ عام دنوں میں رئیسوں کے یہاں بھی اہتمام نہ ہو پائے۔یہی نہیں اللہ تعالیٰ اتنا مہربان ہو تا ہے کہ ہر ایک عمل کا اجر ستر گنا بڑھا دیا جاتا ہے۔ گویا ایک وقت کی نماز کے ساتھ69نمازوں کا ثواب فری.......نفل پڑھو، فرض کا ثواب پاؤ۔شیطان کو بھی بیڑیوں میں جکڑ کر قید کردیا جاتا ہے......  ”ابو رمضان کے مہینے میں کوئی غلط کام نہیں کرنا چاہیے نا۔“ساجد نے مرزا شجاعت علی سے دریافت کیا۔  ”ہاں بیٹا ساجد۔اس ماہ غلط کام نہیں کرنا چاہیے، لیکن بہت سے لوگ روزے نہیں رکھتے، جب کہ وہ رکھ سکتے ہیں .....کچھ لوگ صرف دکھا وے کے روزے رکھتے ہیں۔ نماز نہیں پڑھتے۔ جھوٹ بولتے ہیں۔ غلط کام بھی کرتے ہیں۔اسی لیے ساجد اللہ نے بُرے کاموں کی سزا کو بھی اس مہینے میں بڑھا دیا ہے۔  ”ابو جان میں بھی روزہ رکھوں گا۔ اب میری عمر دس سال ہو گئی ہے۔ میں اپّی سے چھ سال ہی تو چھوٹا ہوں ........مجھے سحری میں اُٹھا دینا۔“  مرزا شجاعت علی بہت ہی نیک اور ایماندار مسلمان تھے۔ وہ روزے نماز کے سخت پابند تھے۔ یہی سبب ہے کہ انہوں نے گھر میں بھی اسلامی ماحول بنانے کی کوشش کی۔بیگم زمانی بھی اپنے شوہر سے کسی طرح کم دیندار نہیں تھیں۔ ہر وقت تسبیح کا ورد رکھتیں۔ نمازیں پڑھتیں۔ قرآن کی تلاوت کرتیں۔ ان کے دونوں بچے، بیٹی ثنا اور بیٹاساجد بھی والدین کی طرح دین دار تھے۔ ثنا پڑھنے میں بھی بہت تیز تھی۔ گھر کے کام کاج میں بھی ثنا ہمیشہ دلچسپی لیتی۔ گھر پر خادمائیں تھیں۔ پھر بھی ثنااپنے والدین کی خد مت کرتی۔ دادا،دادی کی ہر بات کا خیال رکھتی۔ ساجد بھی نیک بچہ تھا۔ وہ بڑوں کا کہنا مانتا تھا۔ اس نے قرآن مکمل کرلیا تھا۔ نمازیں پڑھنے لگا تھا۔ اپنے ابو کے ساتھ جمعہ اور اکثر مغرب کی نماز پڑھنے مسجد جاتا تھا۔  مرزا شجاعت علی کے گھر میں رمضان کا انتظار تقریباً ایک ماہ قبل سے ہو تا تھا۔ مکان کی سفیدی ہو رہی ہے۔ سارا گھر الٹ پلٹ، نوکر چاکر لگے ہیں۔ ایسا ما حول بن جاتا گو یا شادی کا گھر ہو۔ رمضان کا چاند دیکھنے کا اہتمام ہو تا۔ دعائیں مانگی جاتیں۔ اس بار بھی سب کچھ مکمل تھا، صرف چاند کی خوشخبری با قی تھی۔ چاند کی خبر آتے ہی سا را نظا رہ بدل گیا۔ بیگم زمانی سحری کے کھانوں کے انتظام میں لگ گئیں۔ ثنا ان کا ہاتھ بٹا رہی ہے۔ مرزا شجاعت علی عشاء کی اذان ہوتے ہی، ساجد کے ہمراہ مسجد چلے گئے.......بیگم زمانی،ثنا، ثناکی دادی اور پڑوس کی آمنہ، ان کی بیٹی حاجرہ.....سب نے مل کر عشاء اور ترا ویح کا اہتمام کیا.......تراویح کے بعد ضروریات سے فارغ ہو کر سب بستروں میں جا گھسے۔  صُبح تین بجے بیگم زمانی کی آنکھ کھل گئی۔ وہ بیدار ہوئیں،پہلے وضو کر کے تہجد ادا کی۔ ثناکو جگایا۔ سحری کا انتظام کیا۔ چار بجے مرزا شجاعت علی کو اُٹھایا۔ ساجد کی آنکھ خود بخود کھل گئی تھی.......وہ بہت خوش تھا۔ سب نے ایک ساتھ سحری کھائی۔ثنانے بہت آہستگی سے اپنی امی کے کان میں کچھ کہا.......امی نے بھی آہستگی سے ثنا کو سمجھا دیا۔ ”اللہ اکبر.....اللہ اکبر..........“مؤذن کی آواز گونجی۔  ”روزہ بند کرلو........ابو سحری کا وقت ختم ہو گیا۔ سب لوگ کلی کرلیں اور روزہ کی نیت بھی........“ساجد نے سارے گھر میں شور مچا دیا۔  عورتوں اور لڑکیوں نے گھر پر نماز کا اہتمام کیا۔ مرزا حشمت علی مسجد میں نماز پڑھ کر آئے اور بو لے:  ”بھئی میں ذرا سا سو لوں۔ میری نیند پو ری نہیں ہوئی......“ مرزا حشمت بستر پر دراز ہو گئے۔  ”رمضان میں بس نیند پو ری نہیں ہوتی۔ بیٹا ساجد آپ بھی سو لیں ........“ بیگم زمانی کی بات پر ساجد بو لا، ”نہیں امی مجھے تو نیند نہیں آ رہی۔“  ”امی آج میرا پہلا روزہ ہے۔ آپ افطار کی دعوت کرو نا۔ میرے دوستوں کو بھی بلاؤ نا....... میں سب سے کہہ دوں .............“  ”ہاں بیٹا۔ آج آپ کا پہلا رو زہ ہے۔ آپ دھیان رکھیے کچھ بھی کھانا پینا نہیں اور ہاں آج شام کو آپ کے ساتھ افطار پر بہت سے مہمان ہوں گے۔ آپ اپنے دوستوں سے بھی کہہ دیجئے۔“  یہ سنتے ہی ساجد نے چھلانگ لگائی اور سیدھا فرش پر......اُلٹے سیدھے چپل پہن کر اپنے دوستوں کے پاس رفو چکر ہو گیا۔  مرزا حشمت علی صُبح نو بجے اُٹھے۔ بیگم زمانی نے اُنہیں شام کو افطار کی دعوت کے اہتمام کے بارے میں بتایا۔ اچھا بیگم میں تو آفس جا رہا ہوں۔وہاں سے گاڑی اور ڈرائیور بھجوا دوں گا جو سامان منگوانا ہو کہہ دینا اور اپنے میکے فون کرکے خبر کر دیجئے۔ تقریباًسو لوگوں کے کھا نے کا اہتمام کرا دیتا ہوں۔ میں میزبان ہو ٹل فون کردوں گا۔ بریانی، قورمہ، روٹی وغیرہ سب وقت پر آ جائے گا.......  گھر کا ماحول تبدیل ہو چکا تھا.......شام کی دعوت کے اہتمام میں سا رے لوگ مصروف ہو گئے۔ ثناانٹر کالج میں پڑھتی تھی۔ ساجد پانچویں کلاس میں تھا۔ وہ تیار ہو کر اسکول جانے لگا۔ ”ثنا باجی.......آج آپ اسکول نہیں جارہیں۔“ ”ہاں۔ آج میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔“  ”آپ نے روزہ تو رکھا ہے نا..........؟“ ساجدنے شرارتاً آنکھیں مٹکا تے ہوئے پو چھا۔  ثناایک لمحے کو تو گھبرا گئی۔ اُس نے بیگم زمانی کی طرف دیکھا۔ بیگم زمانی نے ساجد کو دس روپے دیتے ہوئے کہا:  ”ساجد لو یہ رو پے۔ انہیں راستے میں کسی فقیر کو دے دینا۔ بیٹے صدقہ کرنا چاہیے.......“  دوبجے کا وقت تھا سارے گھر میں افرا تفری کا ماحول تھا۔ ساجد کا رکشہ رکا۔ وہ طوفان کی طرح گھر میں داخل ہوا۔ بیگ ایک طرف پھینکا اور سیدھا سامنے والے کمرے میں جا گھسا۔ اچانک ساجد کو کمرے میں دیکھ کر ثناگھبرا گئی۔  ”باجی آپ کیا کھا رہی تھیں ........؟“ساجدنے ثنا کا منھ چلتے ہو ئے دیکھ لیاتھا۔  ”کچھ نہیں ..... ساجد........ میں بھلا کیوں کھانے لگی۔“ ”نہیں مجھے لگا، جیسے آپ کچھ کھا رہی ہیں۔“  ”چلو کپڑے تبدیل کرو۔“یہ کہتے ہوئے ثناگھبرا ئی گھبرائی سی با ہر آ گئی۔ ساجدکے ذہن میں کھچڑی پک رہی تھی۔ میں نے باجی کو منھ چلاتے ہو ئے دیکھا۔ باجی منع کررہی ہیں ......... یہی سوچتے سوچتے اس نے کپڑے تبدیل کیے۔ ظہر کی اذان ہو گئی تھی۔ اس نے وضو کر کے نماز پڑھی اور امی کے سمجھا نے پر سو نے کی کوشش کرنے لگا۔ اُسے نیند نہیں آ رہی تھی۔ پیاس لگ رہی تھی۔ تھو ڑی تھوڑی بھوک بھی ستا رہی تھی۔ بہت دیر بعد اُسے نیند آگئی۔  دو رویہ قطا روں میں لوگ آمنے سامنے بیٹھے تھے۔ سروں پر ٹوپیاں، سامنے انواع و اقسام کی اشیاء۔ سب کی نظریں گھڑی پر۔ساجد شیروانی میں خوب جم رہے تھے۔ سائرن کی آواز پر سب نے افطار شروع کیا۔ بہت گہما گہمی تھی۔ کافی مہمان تھے۔ افطار کے فوراً بعد کھانا اتار دیا گیا۔  ”اطمینان سے کھائیں .......نماز کا اہتمام یہیں ہو جائے گا۔ قاری شفیق صاحب نماز پڑھائیں گے۔“مرزا شجاعت علی سبھی مہمانوں سے کہہ رہے تھے۔  ساجد نے مردانہ محفل میں افطار کیا۔ افطار کے فوراً بعد وہ گھر کے اندر گیا۔ اندر بہت سی مہمان عورتیں تھیں۔ممانی، خالہ، پھوپھی، پڑوس کی آ منہ چاچی،بلقیس خالہ فرزانہ باجی،شبانہ باجی،.......سب افطار میں مصروف تھیں۔اچانک اس کی نظر ثناپر پڑی۔ ثنا سر جھکا ئے افطار کرنے میں مصروف تھی۔ ساجد کو دوپہر کی بات یاد آ گئی۔  ”ثنا باجی........ آپ افطار کررہی ہیں۔ آپ نے تو روزہ رکھا ہی نہیں ......؟“ ساری عورتیں کبھی ساجد کو، کبھی ثناکو اور کبھی ایک دوسرے کو دیکھ رہی تھیں۔ پھر سرگوشیاں شروع ہو گئیں۔ بیگم زمانی ہکا بکا بیٹے کو تک رہی تھیں۔ آنکھوں ہی آنکھوں میں خاموش رہنے کا اشارہ کررہی تھیں۔ مگر ساجد کہاں ماننے والا تھا۔ وہ اور زور سے بولنے لگا۔  ”آپ دو پہر میں کھا رہی تھیں۔ میں نے دیکھا تھا۔ آپ سمجھیں میں نے نہیں دیکھا......“  ساجد آنا فانا پیچھے مڑا اور پل جھپکتے ہی غائب ہو گیا۔  ثناسر جھکائے بیٹھی تھی۔ وہ شرم سے پانی پانی ہو گئی تھی۔ روہانسی ثنا نے بیگم زمانی کی طرف دیکھا۔ اُ سے یہ بھی علم تھا کہ آج ان کا بھی روزہ نہیں ہے۔ ••••••• ���ڈاکٹر اسلم جمشید پوریؔ صدر شعبہ اردو سی سی ایس یونیورسٹی،میرٹھ