Monday, August 14, 2017

افسانچہ - جواب - داکٹر اسلم جمشید پوری

داکٹر اسلم جمشید پوری


جواب


’’آئیے !آئیے! نوشاد صاحب۔‘‘
کال بیل کی آواز پر رافع صاحب نے دروازہ کھولا اور سامنے کھڑے نوشاد صاحب
کو اندر بلایا۔
’’تشریف رکھیں بتائیں کیا لیں گے۔‘‘
’’لے لیں گے ابھی کیا جلدی ہے؟‘‘ نوشاد صاحب نے صوفے پربیٹھتے ہوئے کہا۔
’’بتا دیں، ٹھنڈا یا گرم آنے میں دیر تو لگے گی ہی۔‘‘ رافع صاحب نے اصرار کیا۔
’’کچھ بھی جو آپ کو پسند ہو‘‘
رافع صاحب نے نوکر کوبلاکر کافی لانے کو کہا اور نوشاد صاحب کی طرف
گھومتے ہوئے بولے۔
’’اب بتائیے کیسے زحمت کی؟‘‘
’’ارے بھائی کیا بتاؤں بس بیٹی کے رشتے کے لیے پریشان گھوم رہا ہوں۔‘‘
تھوڑا رک کر پھر بولے۔’’ سنا ہے آپ کے تین بیٹے شادی لائق ہیں اگر ہم
لوگ آپس میں مل لیں تو کیسا رہے۔ برسوں پرانی دوستی نئی ہوجائے گی‘‘
’’اچھا یہ بات ہے کوئی بات نہیں تم نے ٹھیک سنا میرا بڑا
لڑکا سول انجینئر ہے۔ اس کی اور ہماری کوئی مانگ وانگ توہے نہیں۔ ہاں اگر
آپ کار دیں تو اس کا رنگ ہماری پسند کا ہوتوزیادہ بہتر ہے۔ دوسرا بیٹا
ارے کاشف وہ تو ماشااﷲ بہت ذہین ہے۔ ابھی کچھ ماہ قبل ہی اس نے ایم بی اے
کرکے ایکملٹی نیشنل میں جوائن کیا ہے۔ اس کو 10لاکھ کا پیکیج مل رہا ہے۔
اس کے پاس ہونڈا سٹی ہے۔ وہ روزانہ نوئیڈا آتا جاتا ہے۔اس کا ارادہ ہے کہ
وہ نوئیڈا میں ہی کوئی فلیٹ لے لے۔ آپ تو جانتے ہی ہیں آج کل فلیٹ بہت
مہنگے ہیں۔‘‘
اسی دوران ملازم کافی اورڈرائی فروٹ لے آیا تھا۔ رافع صاحب نے پلیٹ نوشاد
صاحب کے سامنے کی، کافی کے لیے کہا اور اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بولے۔
’’تیسرا بیٹا اس کاکیا کہنا وہ تو ٹیچر ہے۔ بی ٹی سی ٹریننگ پوری
کرنے کے بعد اس نے اسکول جوائن کرلیا ہے۔ چھٹا تنخواہ کمیشن لاگو ہونے پر
ا سے ڈی ڈکشن کے کے بعدپندرہ سولہ ہزار تو مل ہی جائیں گے۔اسے تو شاعری
کابھی شوق ہے۔ بہت شریف ہے۔ کہتا ہے مجھے تو کسی بڑے شریف خاندان میں ہی
شادی کرنی ہے خاندانی لوگ رسم وروایات کا پورا خیال رکھتے ہیں۔‘‘
نوشاد صاحب کے ایک ہاتھ میں کافی کا مگ اور دوسرے میں بادام کا ایک دانہ
 دونوں ہاتھ اپنی اپنی جگہ رک گئے۔ وہ ہکّا بکّا رافع صاحب کو دیکھ
رہے تھے جو ایک لمبی جماہی لے کر اپنی ادھوری بات کو پورا کرنے لگے۔
’’اب آپ بتائیں ،میں کسے اندر سے بلاؤں؟
’’جی اپنی بیٹی کو مجھے ایک بہو کی بھی تلاش ہے۔‘‘
***

No comments:

Post a Comment