Saturday, August 26, 2017

افسانہ قاتلوں کے درمیان ایم-مبینبھیونڈی - انڈیا

افسانہ

ایم-مبین

بھیونڈی - انڈیا

قاتلوں کے درمیان


ہوش میں آنے کے باوجود اُسے احساس نہیں ہوسکا کہ وہ زندہ بھی ہے یا نہیں ؟ 
آنکھوں کے سامنے تاریکی چھائی ہوئی تھی اور سارا جسم درد سے بھرا پھوڑا محسوس ہو رہا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے سارا جسم پٹیوں سے جکڑا ہے۔ آنکھوں پر بھی پٹیاں بندھی ہوئی تھیں۔ وہ آنکھیں کھولنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن آنکھیں کھولنے میں کامیاب نہیں ہو پا رہا تھا۔ اکثر ایسا محسوس بھی ہوتا کہ آنکھیں کھل گئیں تو بھی آنکھوں کے سامنے تاریکی چھائی رہتی۔ 
یہ تاریکی نہ تو زندگی کی دلیل تھی اور نہ ہی موت کی علامت ........ ! اگر وہ زندہ تھا تو پھر یہ چاروں طرف تاریکی کیوں چھائی ہے ؟ اور اگر مر چکا ہے تو اُس کے جسم میں احساس کیوں زندہ ہے ؟ اُسے کیوں محسوس ہو رہا ہے کہ اُس کا سارا جسم دہکتا ہوا انگارا بنا ہوا ہے۔ اور سارا جسم پٹیوں سے ڈھکا ہے۔ 
اُسے علم تھا کہ وہ مر چکا ہے۔ 
اِتنا مار کھانے کے بعد اُس کا زندہ رہنا نا ممکن تھا۔ 
چار پانچ سو لوگوں کے مجمع نے اُسے جانوروں کی طرح مارا تھا۔ اُس پر لاتوں ، گھونسوں سے وار تو کئے تھے ساتھ ہی ساتھ اپنے ہتھیار بھی آزمائے تھے۔ 
ترشولوں سے اُس کے جسم کو کئی جگہ چھیدا گیا تھا۔ خنجر اُس کے جسم میں اُتارے گئے تھے۔ لاٹھی، ہاکی سے اُس کے سر پر وار کئے گئے تھے۔ اُس کے زمین پر گرنے کے بعد مجمع اُسے اپنے پیروں سے کچل رہا تھا۔ اِس کے بعد اُس کا زندہ رہنا تو نا ممکن ہی تھا۔
لیکن پھر بھی !اِس کے جسم میں احساس جاگا تھا، اُس کا ذہن کام کرنے لگا تھا۔ وہ مرگیا ہوتا۔ وہ سوچ رہا تھا اور اِس وقت وہ قبر میں ہے، یہ قبر کی تاریکی ہے اور اُس کا جسم جو دُکھ رہا ہے یہ منکر نکیر کے گرجو کی مار کی وجہ سے دُکھ رہا ہے، وہ مسلمان ہے اپنے آپ کو وہ نیک مسلمان مانتا ہی نہیں ہے۔ ہفتہ میں ایک بار صرف جمعہ کو نماز پڑھتا تھا، رمضان میں کچھ روزے رکھ لیتا تھا اور کبھی کبھی قرآن کریم کی تلاوت کر لیتا تھا۔ ہاں اُس کے دل میں ایمان ضرور تھا کہ وہ مسلمان ہے لیکن صرف اِس بنیاد پر اُسے قبر کے عذاب سے نجات مل جائے گی، اِس بات کا یقین تو اُسے بھی نہیں تھا۔ اس لئے ہوش میں آنے کے بعد وہ خود کو قبر میں محسوس کرنے لگا۔ لیکن اِس کے پاس سے جو آوازیں بلند ہو رہی تھیں اُسے اِس بات کا احساس دلا رہی تھی کہ وہ قبر میں نہیں ہے۔ چاروں طرف سے لوگوں کی کراہوں ، چیخوں کا شور اُبھر رہا تھا۔ " ڈاکٹر صاحب میں مرا، میرا سارا جسم دُکھ رہا ہے، یہ درد مجھ سے برداشت نہیں ہو رہا ہے، ڈاکٹر صاحب آپ نے مجھے کیوں بچا لیا ہے، مجھے بھی مرنے دیتے، اب میرا دُنیا میں کوئی بھی نہیں بچا، میں جی کر کیا کروں گا، کس کے لئے جیوں گا ؟ 
" ڈاکٹر صاحب ! بیڈ نمبر ۳۴ کے مریض کی حالت بہت خراب ہے ......... ! ڈاکٹر صاحب ! یہ کیا ہو رہا ہے، لوگ زندگی اور موت کی کش مکش میں مبتلا ہیں ، ایک ایک سانس کے لئے لڑ رہے ہیں اور آپ اُن پر توجہ دینے کی بجائے نرسوں سے خوش گپیّوں میں لگے ہوئے ہیں ؟ " یہ آوازیں قبر سے نہیں اُٹھ سکتی تھیں۔ حلق میں کانٹے سے پڑے ہوئے تھے اور ہونٹوں پر پپڑیاں جمی تھیں۔ بڑی مشکل سے اُس نے اپنی گیلی زبان سے ہونٹوں کو، تھوڑا سا تھوک نگل کر اپنے حلق کو تر کرنے کی کوشش کی۔ 
" مَیں ............... کہاں .................... ہوں ؟ بڑی مشکل سے اُس کے ہونٹوں سے تین لفظ نکل پائے۔ 
" تم اسپتال میں ہو اور پورے چار دِنوں کے بعد تمہیں ہوش آیا ہے۔ " اُس کے قریب سے ایک نسوانی آواز اُبھری۔ اِس ایک آواز کے ساتھ ہی طوفانی رفتار سے اُس کے ذہن نے سب کچھ سوچ کر سارے حالات کا اندازہ لگا لیا۔ تو وہ زندہ بچ گیا ہے۔ معجزہ .......... ! اِتنا ہونے کے بعد تو وہ زندہ بچ ہی نہیں سکتا تھا۔ پھر بھی زندہ بچ گیا ہے، یہ معجزہ ہے۔ اور اِس وقت اسپتال میں ہے شاید صحیح وقت پر وہ اسپتال میں پہونچ گیا اِس لئے زندہ ہے۔ 
" مگر مَیں یہاں کیسے آیا ؟ " 
" تُم اِن ہزاروں لوگوں میں سے ایک جو شہر کے مختلف اسپتالوں میں اِسی حالت میں آئے تھے اور زندہ بچ گئے۔ تمہارا سارا جسم زخموں سے بھرا ہے چہرے پر بھی گہرے زخم ہیں اِس لئے ہم نے تمہارا سارا جسم پٹیوں سے ڈھانک دیا ہے اور چہرہ بھی پٹیوں سے باندھ دیا ہے، تمہاری آنکھیں سلامت ہیں یا نہیں یہ تو پٹیاں کھلنے کے بعد ہی معلوم ہو گا۔ " 
" مجھے کچھ دِکھائی نہیں دے رہا ہے، گہری تاریکی ہے۔ کبھی کبھی ہلکی سی سُرخی لہرا جاتی ہے یا پھر ایک دودھیا روشنی۔ " 
" مبارک ہو، اِس کا مطلب ہے تمہاری آنکھیں سلامت ہیں۔ تمہارے زخم بھی بڑی تیزی سے بھر رہے ہیں۔ بھگوان نے چاہا تو تم بہت جلد اچھے ہو جاؤ گے۔ "
نرس کی بات سن کر اُس کے اندر پھر سے جینے کی ایک نئی آرزو جاگ اُٹھی، وہ مرا نہیں ، وہ زندہ ہے۔ شاید اُس کی آنکھیں بھی سلامت ہیں ، جسم کے زخم بھی اچھے ہو رہے ہیں۔ وہ بہت جلد اچھا ہو جائے گا، چلنے پھرنے کے قابل ہو جائے گا اور اپنے گھر جاسکے گا۔ 
" گھر " اِس بارے میں سوچ کر وہ اور اُداس ہو گیا۔ 
گھر اب کہاں بچا ہے۔ وہ تو اِس کی آنکھوں کے سامنے جل کر راکھ ہو گیا تھا۔ گھر کا کوئی بھی فرد بھی تو نہیں بچا تھا۔ اُس نے اپنی آنکھوں سے اپنے ہی گھر کی چتا میں اپنی بیوی بچوں کو جلتے دیکھا تھا۔ اُس نے آگ میں لپٹی اپنی بیوی کی آخری چیخ اپنے کانوں سے سنی تھی۔ جلتی آگ سے نکل کر وہ آگ سے باہر آنے کی کوشش کر رہی تھی اور جلتے گھر کے گرد بھیڑ نے جو گھیرا بنا رکھا تھا اُن کے ہاتھوں کی لکڑیاں ، ترشول، بھالے بیوی کو دوبارہ آگ میں دھکیل رہے تھے۔ 
ماحول میں انسانی جسموں کے جلنے کی سر پھاڑ دینے والی بدبو تھی۔ اِس بدبو میں شاید اُس کے بچوں کے جسم کی بدبو بھی شامل تھی۔ وہ اُس سے زیادہ نہیں دیکھ سکا تھا کیونکہ کسی کی نظر اُس پر پڑی تھی۔ 
" ارے ......... ! یہ یہاں کس طرح پہونچ گیا، یہ کیسے زندہ بچ گیا ؟ مارو ........... اِسے مارو۔ اُسے دیکھ کر کوئی چیخا تھا اور اُس کے بعد پورا مجمع اُس پر ٹوٹ پڑا تھا۔ 
اُسے اپنے گھر والوں اور گھر کے بچنے کی آس تو قطعی نہیں تھی۔ جو منظر اُس نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا اُس کے بعد تو اُسے یقین ہو رہا تھا کہ پورا محلہ نہیں بچا ہو گا۔ پورے محلے میں نہ تو کوئی گھر باقی بچا ہو گا اور نہ کسی گھر کا کوئی مکیں۔ وہ زندہ تو بچ گیا یہ معجزہ تھا ............... کیوں نہ وہ گھر سے باہر چلا گیا تھا .............. اگر وہ گھر میں ہوتا تو زندہ جل کر راکھ بن جاتا۔ ویسے اُسی دن بیوی اُسے باہر جانے سے روک رہی تھی۔ 
" گھر سے باہر مت جاؤ۔ ۵۸ لوگوں کو زندہ جلانے کے احتجاج میں شہر بند ہے، بند کے دوران کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ " 
" بند، بند کی طرح ختم ہو جائے گا۔ دوکانیں وغیرہ بند رہیں گی، لوگ اِدھر اُدھر بیٹھ کر باتیں کریں گے اور دن گزر جائے گا۔ لیکن ہماری روزی کا کیا ہو گا۔ اگر میں کام پر نہیں گیا تو کل ہمارے گھر چولہا نہیں جلے گا۔ پھر بھی تم فکر مت کرو، اگر مجھے ایسا محسوس ہوا کہ خطرہ ہے تو میں واپس گھر آ جاؤں گا۔ " اور وہ کام کی تلاش میں گھر سے نکل پڑا تھا۔ 
ایک دو گھنٹے کے بعد جب اُسے کوئی کام نہیں ملا تو اُسے محسوس ہوا، اُس نے گھر سے نکل کر غلطی کی ہے۔ پورا شہر بند تھا اور ہزاروں لوگ سڑکوں پر تھے۔ایسے میں کوئی کام ملنے سے تو رہا۔ اِس کے بعد اُسے شہر کے آسمان پر کالے کالے دھوئیں کو دیکھ کر اُس کا دل دھڑک اُٹھا۔ ابھی صورتِ حال کا اُس نے اندازہ نہیں لگایا تھا۔ جو مناظر اُس نے دیکھے تھے اُن سے وہ ڈر گیا تھا۔ 
سینکڑوں کا مجمع ٹولیاں بنا بنا کر سڑکوں پر گشت کر رہا تھا۔ وہ ہتھیاروں سے لیس تھے جس دوکان کو چاہتے توڑ کر اُسے نذرِ آتش کر دیتے۔ جس کسی آدمی کو چاہتے اُس پر ٹوٹ پڑتے اور ایک لمحہ میں اُسے مار کر جلتی ہوئی آگ میں جھونک دیتے۔ 
گھر جل رہے تھے۔دوکانیں لوٹی اور جلائی جا رہی تھیں۔ لاشیں گر رہی تھیں لوگ جانیں بچا کر 
بھاگ رہے تھے۔ قاتل ان کلا تعاقب کر رہے تھے۔ اور بھاگتے لوگوں کو گھیر کر قتل کر رہے تھے۔ جو مزاحمت کرتے اس کی مزاحمت کا جواب دیتے اور پھر اس کی لاش کے چیتھڑے اڑا دیتے۔ 
ایسا لگتا جیسے جنگل راج آگیا تھا۔ ہر فرد وحشی درندہ بن گیا تھا اور ایسی حرکتیں کر رہا تھا جو وحشی درندے بھی نہیں کر سکتے ہیں۔ ایسے ایسے مناظر سامنے دکھائی دے رہے تھے جو آج تک نہ فلموں ،یا ٹی وی پر دیکھے تھے اور نہ ہی کتابوں میں پڑھے تھے۔ 
" یا اللہ۔۔۔۔۔۔۔۔یہاں یہ حال ہے۔تو میرے محلے کا کیا حال ہو گا؟ میرے بیوی، بچے کس حال میں ہوں گے ؟ تو ہم پر رحم کر، انھیں محفوظ رکھ۔"
سوچتا ہوا۔ وہ قاتلوں ، وحشیوں کے درمیان سے خود کو بچاتا اپنے محلے کی طرف بھاگا۔ 
بھیڑ وحشیانہ نعرے لگا رہی تھی۔ 
"مارو۔کاٹو۔کوئی بھی زندہ نہ بچنے پائے۔"
.خون کا بدلہ خون۔ ان کا نام و نشان زمین سے مٹا ڈالو۔،
اپنی طاقت بتا دو۔ ایک ایک کے بدلے ہزار ہزار کی جان لو۔،
ان وحشیوں سے بچتا وہ کسی طرح اپنے محلے میں آیا تو وہ بھی اس کی آنکھوں کے سامنے وہی منظر تھے جو راستہ بھر وہ دیکھتا ہوا آیا تھا۔ 
پورے محلے میں وہی وحشیوں کا ننگا ناچ چل رہا تھا۔
مجمع میں شامل وہ ایک ایک فرد کو حیرت سے دیکھ رہا تھا۔
اس مجمع کے ایک ایک فرد کو وہ اچھی طرح پہچانتا تھا۔
سیاسی ورکر تھے،سیاسی لیڈر،مذہبی رہنما،کٹّر مذہب پرست،عام آدمی سبھی تواس مجمع میں شامل تھے۔اور وہ وحشت بربریت کا ننگا ناچ ناچ رہے تھے۔مظلوم مدد کے لیے پکار رہے تھے۔ لیکن کوئی بھی ان کی مدد کو آگے نہیں بڑھ رہا تھا۔ چپ چاپ کھڑے تماشہ دیکھ رہے تھے۔بربریت کا ایسا تماشہ جسکاتصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن بڑے اطمینان سے وہ اس بربریت دیکھ رہے تھے۔ایسا لگتا تھا کہ یہ کوئی جانور وحشی درندہ بن گیا ہے۔کسی میں بھی ذرا سی بھی انسانیت باقی نہیں تھی۔
اگر ذرا سی بھی انسانیت باقی ہوتی تو وہ اسکے خلاف احتجاج کرتا،وحشیوں کو ایسا کرنے سے روکتا یا کم سے کم ان مناظر کو دیکھ کر اپنی آنکھیں پھیر لیتا۔
اس سے آگے نہ تو وہ کچھ سوچ سکا اور نہ ہی کچھ دیکھ سکا۔
کسی کی نظر اس پر پڑی اور وہ اس کا نام لیکر چیخی۔ اور پھر ان وحشیوں کا پورا مجمع اس پر ٹوٹ پڑا۔اس کے بعد نہ تو کسی کے زندہ رہنے کی توقع کی جاسکتی ہے نہ آس لگائی جاسکتی ہے۔ 
" نرس ! نوٹیا کا کیا حال ہے۔ " اُس نے نرس سے پوچھا۔ 
" تم اُس محلے میں رہتے تھے ؟ ہے بھگوان ...... ! وہاں تو بہت برا حال ہے، وہاں پر ۱۱۰ لوگوں کو زندہ جلا یا گیا ہے اور پورا محلہ جلا کر خاک کر دیا گیا ہے۔ " 
نرس کی باتیں سن کر اُس کی پٹیوں میں چھپی آنکھیں بند ہو گئیں۔ 
نرس کی اِس بات سے اُس کی آخری اُمید بھی ٹوٹ گئی تھی۔ اِس کے بعد اُسے اپنے محلے اور گھر والوں کے بارے میں سوچنے کے لئے کچھ بھی نہیں بچا تھا۔ 
دس دنوں بعد وہ بستر پر اُٹھ کر بیٹھنے کے قابل ہو گیا۔ 
آنکھوں کی پٹیاں کھل گئی تھیں وہ اچھی طرح سب کچھ دیکھ سکتا تھا۔ اُس کا پورا چہرہ زخموں سے بھرا تھا، سارا جسم زخموں سے چور تھا لیکن زخم بھرنے لگے تھے۔ صرف جو گہرے زخم تھے اُن میں رُک رُک کر ہلکی ہلکی ٹیس اُٹھتی رہتی تھی۔ 
اِس دوران ہزاروں کہانیاں اُس نے سنی تھیں۔ وہ کہانیاں اُس بربریت سے بھی زیادہ ہولناک تھیں جو اُس نے اپنی آنکھوں سے دیکھی تھی۔ 
اسپتال میں اُس کی طرح سینکڑوں افراد تھے۔ ادھ مرے، زندگی کی چاہ میں زندگی سے جنگ کرتے، دل میں جینے کی آرزو لئے، یہ درد کو سہنے کی کوشش کرتے لوگ۔ ہر کسی کی کہانی اُس سے ملتی جلتی تھی۔ ہر کسی نے یا تو اپنا پورا خاندان کھویا تھا یا پھر گھر بار۔ 
پولس آ کر اُس کا بیان لے گئی تھی۔ سیاسی لیڈر آ کر اُسے تسلیاں دے گئے تھے۔ لیڈر ہر کسی کو تسلیاں دیتے تھے۔ پولس بار بار آ کر اُن کے بیان لیتی تھی۔ وہاں پر کئی پولس والے ڈیوٹی پر متعیّّن تھے۔ وہ جیسے اُن پر نگرانی رکھ رہے تھے۔ 
ایک دن اچھی طرح چیک اپ کرنے کے بعد ڈاکٹر نے اُس سے کہا۔ 
" اب تم چاہو تو اپنے گھر جاسکتے ہو۔ جو زخم باقی ہیں وہ جلد ہی بھر جائیں گے۔ آٹھ دن میں ایک بار آ کر اِن زخموں کی مرہم پٹی کرا لیا کرنا۔ " 
ڈاکٹر نے تو کہہ دیا کہ وہ گھر جاسکتا ہے لیکن گھر بچا ہی نہیں ہے تو وہ کون سے گھر جائے۔ اِس سے اچھا ہے کہ وہ یہیں اسپتال میں لا وارثوں کی طرح پڑا رہے۔ 
لیکن وہ زیادہ دنوں تک وہاں نہیں رہ سکا۔ 
ایک دن پولس آ کر اُسے اسپتال سے اُٹھا لے گئی اور اُسے حوالات میں ڈال دیا۔ 
حوالات کے اِس کمرے میں وہ پچاس لوگوں کے درمیان تھا۔ اِن پچاس لوگوں میں کچھ کی حالت اُس کی سی تھی، کچھ لوگ اچھی حالت میں تھے۔ 
" انسپکٹر صاحب ! مجھے یہاں کیوں لایا گیا، مجھے حوالات میں کیوں ڈالا گیا ہے ؟ " وہ چیخا۔ 
" دنگا کرنے کے الزام میں تجھے حوالات میں ڈالا گیا ہے۔ تیرے محلے کے پڑوس کے محلے کی شانتی بین چال پر تم لوگوں نے حملہ کیا تھا اور چال کو آگ لگا دی تھی اور دس لوگوں کو زندہ جلا دیا تھا۔ "
" انسپکٹر صاحب ! بھلا مَیں کسی پر حملہ کس طرح کر سکتا ہوں۔ کس طرح کسی کو زندہ جلا سکتا ہوں ؟ خود میرا گھر بار جلا دیا گیا، میرے بیوی بچوں کو میری آنکھوں کے سامنے زندہ جلا دیا گیا مجھے مار مار کر ادھ مرا کر دیا گیا ہے۔ پھر میں یہ بھیانک جرم کیسے کر سکتا ہوں ؟ " وہ چیخا۔ 
" اے کاہے کو چیخ رہا ہے ؟ اپنا گلہ پھاڑ پھاڑ کر تُو رات دن بھی چیختا رہے تو بھی تیرے چیخنے کا اُن پر کوئی اثر نہیں ہو گا، ایک بار اُنھوں نے جو الزام لگا دیا، وہ پتھر کی لکیر ہے۔ اب فساد، لوٹ مار، قتل و غارت گری کے جرم میں سات آٹھ سال اندر رہ کر عدالت میں خود کو بے گناہ ثابت کر تبھی یہاں سے نکل پائے گا۔ " 
تب اُس کو پتہ چلا کہ اِس کمرے میں جتنے لوگ ہیں اُن میں سے زیادہ تر لوگ بے گناہ ہیں ، اُنھیں شہر کے مختلف علاقوں سے پکڑ کر لا کر اِس حوالات میں ٹھونس دیا گیا ہے اور اُن پروہ الزام لگا دئے گئے ہیں۔ 
اِس کے بعد تو اُس کے دل میں حوالات سے نکلنے کی کوئی اُمید باقی نہیں رہی۔ ایک دن کوئی سیاسی لیڈر پولس اسٹیشن آیا۔ حوالات میں آ کر وہ اُن سے ملا۔ اُس نے اُن کی ساری باتیں سنیں اور باہر جا کر پولس پر گرجنے لگا۔ 
" یہ کہاں کا انصاف ہے ؟ یہ لٹے، تباہ حال لوگ جو اُس وحشیانہ فساد میں اپنا سب کچھ لٹا چکے ہیں اُن کے ساتھ جو وحشیانہ سلوک جن فسادیوں نے کیا وہ تو آزاد ہیں پولس نے اُن کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی۔ اُن مظلوم لوگوں کو فسادی بنا دیا گیا ہے۔ میں کل ہی اِس کے بارے میں پارلمینٹ میں آواز اُٹھاؤں گا اور وزیر داخلہ سے اِس بارے میں جواب طلب کروں گا۔ " 
اُس کی بات سن کر پولس کے چہرے پر ہوائیاں اُڑنے لگیں۔ 
" اگر ایسا ہوا تو جواب دینا مشکل ہو جائے گا۔ ہم اُن لوگوں پر کیس تو بنا چکے ہیں۔ اُنھیں اِس وقت چھوڑ دیا جائے جب معاملہ ٹھنڈا ہو جائے پھر اُٹھا لیں گیا اور ہمارے سروں سے یہ مصیبت بھی ٹل جائے گی۔ 
اور اُنھیں راتوں رات چھوڑ دیا گیا۔ 
اب وہ شہر میں تنہا تھا۔ بے یار و مدد گار ............. بے امان۔ 
نہ تو اُس کا کوئی ساتھی نہ رشتہ دار تھا،نہ اُس کے سر پر کوئی چھت تھی۔ 
اپنے جلے گھر کی راکھ کو صاف کر کے اُس نے ایک کونے میں اتنی جگہ بنا لی تھی جہاں وہ ریلیف میں ملا کمبل بچھا کر سو سکتا تھا۔ آنکھ کھلتی تو اُسے اپنے چاروں طرف وہی شناسا چہرے دکھائی دیتے جنھوں نے اُس کے گھر اور اُس کے بیوی بچوں کو جلایا تھا۔ 
وہ اُسے دیکھ کر طنزیہ انداز میں مسکراتے تھے۔ وحشیانہ ہنسی ہنستے تھے جن کو سن کر اُس کا دل دہل جاتا تھا۔ بڑے آرام سے وہ اپنے کام دھندوں میں لگے ہوئے تھے۔ اپنی دوکانوں پر بیٹھے قہقہے مار کر باتیں کرتے تھے۔ اپنی پارٹی کے جلسوں اور مذہبی جلسوں میں جوش و خروش سے کرتن بھاشن کرتے تھے۔ وہ ایک ایک چہرے کو اچھی طرح جانتا تھا۔ 
اُس نے جلتی ہوئی بیوی کے سینے میں ترشول مار کر اُسے دوبارہ آگ میں دھکیلا تھا۔ اُس نے اُس کے جسم پر کئی جگہ ترشول گاڑھے تھے، اُس نے اُس کے سر پر ہاکی ماری تھی، اُس نے اُس کے جسم پر خنجر مارا تھا، اُس نے اُس جگہ آگ لگائی تھی، اُس نے وہ دوکان لوٹی تھی۔ 
لیکن وہ سب آزاد تھے۔ 
پولس اُسے بار بار پولس اسٹیشن طلب کرتی اور پتہ نہیں کن کن کاغذات پر اُس کے دستخط لیتی۔ دن بھر اُس کا پولس اسٹیشن یا کورٹ میں گزرتا۔ 
اور قاتل، وحشی اپنے اپنے گھروں ، محلوں ، دوکانوں میں رہتے۔ وہ خود کو قاتلوں کے درمیان گھرا ہوا پاتا۔ اُس کے چاروں طرف قاتل بکھرے ہوئے تھے جو آزاد تھے۔ 
ایک بار وہ اُن سے بچ گیا لیکن اگر اُنھیں دوبارہ اِس طرح کا موقع ملے تو کیا وہ بچ پائے گا ؟

No comments:

Post a Comment